Monday, August 11, 2014

بائبل

BIBLE, By Muhammad Akbar
بائبل
تحریر و تحقیق: محمد اکبر


وراثت کے چند پہلو




Virasat key Chand Pehlu
By: Muhammad Akbar


PDF Link To Download File




وراثت کے چند پہلو


تحریر و تحقیق:


محمد اکبر، اللہ والے ، مظفرگڑھ
سورة النساءمیں وراثت کی تفصیل لکھی ہے لیکن یہ بندہ صرف وراثت کے چند پہلوؤں پر لکھنا چاہتا ہے کہ دادا فوت ہونے پرا س کے یتیم پوتے (جو کہ دادے کی زندگی میں یتیم ہو چکاہو)کو دادا کی وراثت میں سے حق ملے گا یا نہیں ؟ جبکہ یتیم بچوں کے چاچے زندہ ہیں۔
1۔ اس بارے میں علماءکا فتوی یہ ملتا ہے کہ چاچوں کے ہوتے ہوئے یتیم بچوں (پوتوں) کو کوئی حق وراثت نہیں ملے گا کیونکہ قریبی کا حق پہلے ہے اور یتیم پوتے بعیدی ہیں اس لیے ان کا وراثت میں کوئی حق نہیں۔
2۔ حکومت پاکستان نے اس بارے میں بمطابق فیصلہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دیا ہے کہ ایسے یتیم یا با لغ کہ جن (کا باپ فوت) ہو چکا ہو چاچے زندہ ہوں اُن کے دادا فوت ہونے کی صورت میں ان یتیم بچوں کو بھی دادا کی فوتگی پر وراثت میں حق ملے گا اس طرح کہ ان کا باپ زندہ تصور ہو کر اس کو اپنے بھائیوں کے برابر حصہ ملے پھر فوت شدہ تصور ہو کر وہی حصہ اس کی اولاد کو ملے یعنی یتیم بچوں کو یا دادے کے پوتوں کو۔
عام طور پر سننے میں آیا ہے کہ علماءکرام کا فتویٰ شریعت دین اسلام کے عین مطابق ہے اور حکومت پاکستان کا فیصلہ شریعت دین اسلام کے خلاف ہے۔اس بندہ نے اس بارے میں خوب غور وفکر کیا ہے کہ جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت پاکستان کی سپریم کورٹ کا فیصلہ شریعت دین اسلام کے عین مطابق ہے اور علماءکا فتویٰ شریعت دین کے خلاف جس کے ثبوت میں بندہ دلائل سے بات کرتا ہے۔
دین اسلام میں کسی چیز کے بارے یا کسی بات کی بابت فیصلہ یا فتویٰ دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طبیعت اور صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ یا فتویٰ دیا جائے گا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو فتویٰ یا فیصلہ ہم دے رہے ہیں اس سے اللہ تعالیٰ الٹا ہم سے ناراض ہو جائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طبیعت اور صفات کے خلاف فتویٰ یا فیصلہ دے دیں۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی طبیعت اور صفات کی دو باتیں تو ضرورذہن میں رکھی جائیں گی۔
1۔ ”اور یہ کہ اللہ نہیں ظلم کرنے والا واسطے بندوں کے“(سورة آل عمران 3 : 182) (سورة الانفال 8 : 51 )
2۔ ” مطلب ہمارا فرما برداری ہے معقول“(سورة النور 24 : 53 )
 3۔ ”اور حکم کریں ساتھ اچھی چیز کے (معقول) اور منع کریں نا معقول سے(سورة آل عمران  3 : 104 )
اللہ تعالیٰ کی دو صفات کھل کر سامنے آئیں۔
1۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے پر ظلم نہیں کرتا۔
2۔ اللہ تعالیٰ نامعقول بات پسند نہیں کرتا۔
شریعت دین اسلام اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے۔ اس لیے شریعت دین اسلام میں کہیں بھی کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ کسی انسان کے ساتھ ظلم کیا جائے یا نا معقول بات کہی جائے۔
تو سب سے پہلے یہ بندہ اپنے دلائل پیش کرتا ہے۔

دلیل نمبر1
 یہ دیکھا جائے تو علماءکا فتویٰ سرا سر ظلم ہے کہ ایک تو اُن بچوں کا والد فوت ہو گیا اور پھر فتوی کہ دادے کی وراثت میں سے حق نہ دیا جائے۔یہ یتیموں پر ظلم کرنے والی بات ہے۔ یہ کہ ایساہونا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہو سکتا۔لہٰذا علماءکا فتوی غلط ہے اور حکومت پاکستان کی سپریم کورٹ کا فیصلہ عین دین اسلام کے مطابق ہے۔

دلیل نمبر2
 اس طرح حکومت پاکستان کے فیصلے اور علماءکے فتوی پر خوب غور کرو کہ فیصلہ نا معقول ہے یا فتوی تو صاف ظاہر ہے کہ یہ فتوی نامعقول ہے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ صاف اور ظاہری طور پر جائز اور معقول بات ہے۔ اللہ تعالیٰ معقول بات کی اجازت دیتا ہے نامعقول کی نہیں۔

دلیل نمبر3
یہ دلیل قرآن پاک کی رو سے ہے اوریہ دلیل حجت اتما م ہے کہ سورة یوسف 12 : 6 میں دادے اور پڑدادے کو باپ کہا ہے کہ فرمایا
اوپر دو باپ تیرے کے پہلے اس سے ابراہیم اور اسحاق“( سورة یوسف  12 : 6 )
حالانکہ عربی میں دادے کو جد وغیرہ کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سورة یوسف میں یہ صرف اسی لیے لکھا کہ کل کو لوگ دادے پڑدادے کو باپ کی حیثیت سے خارج نہ کر دیں۔ دادا تو کیا پڑدادے اور پڑ پوتے میں بھی یہی معاملہ ہو تو وراثت پہنچے گی۔ اکثر انسان اپنی چار چار پیڑھی دیکھ لیتا ہے۔ وراثت اسی ترتیب سے ملے گی کہ درمیان والا فوت شدہ زندہ تصور ہو گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس بارے میں مناظرہ کرنے کو تیار تھے کہ دادے پڑدادے باپ ہوتے ہیں۔

دلیل نمبر4
 یہ کہ دادا کا ایک یتیم پوتا ( لڑکا) زندہ ہو تو وہ دادا کلالہ (جس کا بیٹا نہ ہو وغیرہ)نہیں کہلا سکتا۔ تو پھر بھلا اس پوتے کو وراثت کے حق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔

دلیل نمبر5
 دادی کے فوت ہونے پر اگر دادی کے یتیم پوتے زند ہ ہوں تو خاوند دادے کو چوتھائی ملا نہ کہ آدھا۔ (ابن کثیر)۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ یتیم پوتے کا رشتہ دادے سے خاص قریبی رشتہ ہے۔    

دلیل نمبر6
 اے اللہ کے نیک بندو ! اللہ تعالیٰ کی ذات تو وہ الرحمن والرحیم ذات ہے کہ جس نے وراثت میں دوسرے یتیم مسکین فقراءکا بھی حق رکھ دیا ہے۔
اور جب حاضر ہوںبانٹنے میں قرابت والے اور یتیم اور فقراءپس کچھ دو انکو اس میں سے اور کہو ان کو بات اچھی“(سورة النساء 4 : 8 )
تو پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی دادے کے ایسے حقیقی پوتے کہ جن کا باپ فوت ہو گیا ہو۔ وہ بالغ ہوں یا یتیم وراثت کے حق سے محروم کر دے۔

 دلیل نمبر7
اے اللہ کے بندو! دیکھلاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کہاں لکھا ہے کہ میں دادے کے ایسے پوتوں کو کہ جن کا باپ مر گیا ہووراثت کے حق سے محروم کرتا ہوں۔ عقل کرو اے اللہ والو۔

دلیل نمبر8
 نرینہ اولاد کا ہونا باپ کا نام زندہ رکھنے والا کہلاتا ہے۔ نرینہ اولاد نہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ فلاں کا نام ختم ہو گیا۔جس کا نام زندہ ہے وہ زندہ شمار ہو گا اور اپنا حق پائے گا پھر پوتے کو ملے گا۔ جیسے شہید کو مردہ مت کہو کہ وہ رزق پاتے ہیں اسی طرح جس کا نسب زندہ ہے وہ زندہ کہلائے گااور اپنا حق پائے گا۔یہ نام زندہ کہلانا صرف وراثت کا حق حاصل کرنے کے لیے کہلانا ہے۔
یاد رہے کہ کسی بھی شخص کو اپنی جائیداد کا 1 بٹا 3 حصہ تک وصیت کرنے کا اختیار ہے۔ خواہ غیروں کو دے خواہ اپنے غریب رشتہ داروں کو خواہ اپنی اولاد میں سے معذوریا غریب یا خدمت کے صلہ میں۔ صرف1بٹا3 حصہ۔
یہ کہ اگر کسی نے زندہ لاش دیکھنی ہوں تو ایسے شخص کو دیکھ لے کہ جس نے اپنی زندگی میں جائیدد کا ورثہ اپنی اولاد کے نام کر دیا ہو۔ زندہ تو اس لیے وہ زندہ ہے اور لاش(مردہ)اس لیے کہ مرنے کے بعد وراثت تقسیم ہوتی ہے جوہو چکی۔
کلالہ جس کی جائیداد جن لوگوں میں ورثہ کے طور پر تقسیم ہو نی ہے وہ تمام ایسے ہیں جیسے کلالہ کے بیٹے بیٹی۔ ان لوگوں پر کلالہ کی خدمت کرنا فرض بن جاتا ہے جییے بیٹابیٹی پر کیونکہ اس کی جائیداد کے وارث جو ٹھہرے۔
وصیت میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔کہ فرمایا
پس جو کوئی ڈرے وصیت کرنے والے سے کجی کو یا گناہ کو پس اصلاح کر دے درمیان ان کے پس نہیں گناہ اوپر اس کے تحقیق اللہ بخشنے والا مہربان ہے“(سورة البقرہ 2 : 182 )
ایک صحابی نے اپنے غلام کے لیے وصیت میں آزاد اور 100 اونٹ کہہ دئیے۔ بعد میں بیٹوں نے اعتراض کیا معاملہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا آپ نے فرمایا زیادہ اونٹ کہے اور فرمایا 20 دے د و30 دے د و35 دے دو فرمایا40 اورپس اس کے بعد فرمان جاری ہوا کہ1بٹا3سے زیادہ کی وصیت نہ کی جائے۔ باقی تما م وارثوں میں تقسیم ہوا اورایک تہائی بھی بہت زیاد ہ ہے۔ کم کی وصیت کیا کریں۔ اس فرمان کی رو سے اگر کوئی کلالہ یہ وصیت کر دے کہ میرے مرنے کے بعد میرا سارا ور ثہ مسجد کا وغیرہ تو یہ غلط وصیت ہو گی۔ 1تہائی مسجد کا اور 2 تہائی وارثوں کا۔ زندہ منصف یا جج اس وصیت میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔
ایک اور معاملہ یہ کہ اگر کسی باپ نے اپنی زندگی میں کسی لڑکے کے مطالبے پر اس کو اپنی جائیداد سے رقم سے یا زمین کی صورت میں کافی کچھ دے دیا ہو لیکن با پ کی وفات کے پردہ پھر وراثت میں برابر کا حصہ مانگتا ہے تو وہ غلطی پر ہے کہ وہ باپ کی زندگی میں اپنی وراثت میں سے مکمل یا نا مکمل حصہ وصول پا چکا ہے۔ انجیل مقدس میں واقعہ لکھا گیا ہے۔
لوقا: باب 15:11۔پھر اس نے کہا کہ کسی شخص کے دو بیٹے تھے۔12۔ ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا اے باپ! مال کا جو حصہ مجھ کو پہنچتا ہے مجھے دیدے۔ اس نے اپنا مال متاع انہیں بانٹ دیا۔ 13۔ اور بہت دِن نہ گذرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کچھ جمع کر کے دور دراز ملک کو روانہ ہوا اور وہاں اپنا مال بدچلنی میں اڑا دِیا۔ 14۔ اور جب سب کچھ خرچ کر چکا تو اس ملک میں سخت کال پڑا اور وہ محتاج ہونے لگا۔ 15۔پھر اس ملک کے ایک باشندہ کے ہاں جا پڑا۔ اس نے اس کو اپنے کھیتوں میں سور چرانے بھیجا۔ 16۔ اور اسے آرزو تھی کہ جو پھلِیاں سور کھاتے تھے انہی سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اسے نہ دیتا تھا۔17۔ پھر اس نے ہوش میں آ کر کہا میرے باپ کے بہت سے مزدوروں کو افراط سے روٹی ملتی ہے اور میں یہاں بھوکا مر رہا ہوں! 18۔ میں اٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اس سے کہوں گا اے باپ! میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا۔19۔ اب اِس لائق نہیں رہا پھر تیرا بیٹا کہلاؤں۔ مجھے اپنے مزدوروں جیسا کرلے۔ 20۔ پس وہ اٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا۔ وہ ابھی دور ہی تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اس کو گلے لگایا اور چوما۔ 21۔ بیٹے نے اس سے کہا اے باپ! میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا۔ اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں۔22۔ باپ نے اپنے نوکروں سے کہا اچھے سے اچھا لباس جلد نکال کر اسے پہناؤ اور اس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں جوتی پہناؤ۔23۔ اور پلے ہوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تاکہ ہم کھا کر خوشی منائیں۔ 24۔ کیونکہ میرا یہ بیٹا مردہ تھا۔ اب زِندہ ہوا۔ کھو گیا تھا۔ اب ملا ہے۔ پس وہ خوشی منانے لگے۔ 25۔ لیکن اس کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا۔ جب وہ آ کر گھر کے نذدیک پہنچا تو گانے بجانے اور ناچنے کی آواز سنی۔ 26۔ اور ایک نوکر کو بلا کر دریافت کرنے لگا یہ کیا ہو رہا ہے؟ 27۔ اس نے اس سے کہا تیرا بھائی آ گیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا ہے کیونکہ اسے بھلا چنگا پایا ہے۔ 28۔ وہ غصے ہوا اور اندر جانا نہ چاہا مگر اس کا باپ باہر جا کر اسے منانے لگا۔ 29۔ اس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا دیکھ اِتنے برسوں سے میں تیری خدمت کرتا ہوں اور کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی مگر مجھے تو نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دِیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی مناتا۔ 30۔ لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مال متاع کسبیوں میں اڑا دِیا تو اس کے لیے تو نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا۔ 31۔ اس نے اس سے کہا بیٹا! تو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے۔ 32۔ لیکن خوشی منانا اور شادمان ہونا مناسب تھا کیونکہ تیرا یہ بھائی مردہ تھا۔ اب زندہ ہوا۔ کھویا ہوا تھا۔ اب ملا ہے۔
اس واقعہ میں آیت نمبر31 میں کہ” جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے“مطلب یہ کہ وراثت میں تیرے دوسرے بھائی کو کوئی حق نہ ہوگا اور یہ فقرہ ”میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا“مطلب یہ ہے کہ باپ کی زندگی میں وراثت کا حق مانگ کر لے چکنا گناہ ہوا۔ وراثت تقسیم کرنے میں اگر صرف دو بھائی ہوں تو وہ اپنی جائیداد اس طرح بانٹ سکتے ہیں جیسے توریت پیدائش میں ذکر ہے کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام نے تقسیم کی اورحضرت لوط علیہ السلام نے مانگا۔
پیدایش:باب 13:9۔کیا یہ سارا مُلک تیر ے سامنے نہیں؟ سو تُو مجھ سے الگ ہو جا۔ اگر تُو بائیں جائے تو میں دہنے جاؤں گا اور اگر تُو دہنے جائے تو میں بائیں جاؤں گا۔۔۔11۔ سو لوط نے یردن کی ساری ترائی کو اپنے لیے چُن لیا اور وہ مشرق کی طرف چلا اور وہ ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔
 اسی طرح بڑا بھائی دو برابر حصہ کر دے او ر چھوٹا بھائی جو اسے پسند آئے مانگ لے اس طرح کوئی جھگڑا نہ ہو گا اور اگر بھائی زیادہ ہوں اور ضدی کہ ہر کوئی کہے میں فلاں حصہ لوں گا تو ان کا فیصلہ کرنے کے لیے الہامی کتاب بائبل میں قرعہ ڈالنے کا طریقہ درج ہے کہ فرمایاگیا۔
امثال :باب 18:18۔قرعہ جھگڑوں کو موقوف کرتا ہے اور زبردستوں کے درمیان فیصلہ کردیتا ہے۔
حِزقی ایل :باب45:1۔اور جب تم زمین کو قرعہ ڈال کر میراث کے لئے تقسیم کرو
اور توجہ خاص کر فرمایا
امثال :باب 12:22۔نیک آدمی اپنے پوتوں کے لئے میراث چھوڑتا ہے
اس تحریر سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سبق دیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لئے میراث چھوڑ جائیں اور حاصل کرنے والوں کو سمجھانے کے لئے قرآن پاک میں یوں فرمایا گیا اور یہ برے لوگوں کی صفت بیاںفرمائی گئی۔
اور کھاتے ہو تم میراث کو کھانا پے درپے“(سورة الفجر 89 : 19 )
اور دیکھنے میں بھی آیا ہے کہ بعض لوگ باپ کے فوت ہونے کے بعد اپنی جائیداد فروخت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا انجام خراب ہوتا ہے۔

وصیت کی اہمیت
سورة النساءمیں وراثت کے حصے تفصیل سے لکھ دئیے گئے ہیں لیکن اس سورة کی آیت 11میں وصیت کے بارے میں دو بار الفاظ آئے کہ
 ”پیچھے وصیت کے کہ وصیت کر جاوے ساتھ اس کے یا قرض کے “(سورة النساء  4 : 11 )
قرآن پاک کے ان الفاظ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ کہ جو تفصیل وراثت کے بارے میں لکھی گئی ہے کہ ایک مرد کا حصہ برابر دو عورتوں کے وغیرہ وہ پیچھے وصیت کے ہے ۔ اگر مرنے والا (فوت ہونے والا ) فوت ہونے سے پہلے وصیت کر گیا ہے تو پہلے وصیت پر عملدر آمد ہو گا ۔ پہلے فوت ہونے والے کی وراثت میں سے فوت ہونے والے پر اگر کوئی قرض ہے تو وہ قرض ادا ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کو جائیداد و مال و دولت کا وارث بنا یا ہے وہیں انسان کو یہ اختیار بھی دیا ہے کہ وہ وصیت کے ذریعے سے جائیداد اپنے وارثوں میں تقسیم کر دے ۔وصیت کر جانا تمام لڑائی جھگڑے مٹا ڈالتا ہے ۔ وراثت کے تقسیم میں وصیت پر عمل در آمد کا حق پہلے بنتا ہے اس کے متعلق دو ثبوت پیش کرتا ہوں ۔
1۔ ایک صحابی نے اپنے غلام کے لیے وصیت میں آزاد کرنا اور 100 اونٹ کہہ دئیے تو اُس صحابی کی وفات پر پہلے وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس غلام کی آزاد کرنے کے ساتھ100 اونٹ دینے کا معاملہ پہلے آیا ۔
2۔ اگر کوئی شخص اپنے نافرمان بیٹے کو اپنی جائیداد سے عاق کر دیتاہے تو اس شخص کے بیٹے کو اس کے باپ کی وفات کے بعد اُس کے باپ کی وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا کیونکہ اس کا باپ وصیت کے ذریعے اسے عا ق کر گیا تھا۔ ثابت ہو اکہ وصیت پر عمل در آمد کا حق پہلے ہے اور بعد میں اس تقسیم کی ترتیب کا کہ ایک مرد برابر دو عورتوں کے ۔
کچھ لوگ اچانک فوت ہو جاتے ہیں اور کچھ بھی وصیت نہیں کر پاتے تو ان کی وراثت اُس ترتیب سے تقسیم کی جائے گی کہ جو قرآن پاک میں سورة النساءمیں لکھ دی گئی ہے ۔
وصیت کا اجرا وصیت کرنے والے کے فوت ہونے کے بعد کیا جائے گا کہ الہامی کتاب انجیل مقدس میں فرمایا گیا
عِبرانیوں: باب9: 17۔ اس لئے کہ وصیت موت کے بعد ہی جاری ہوتی ہے اور جب تک وصیت کرنے والا زندہ رہتا ہے اس کا اجرا نہیں ہوتا۔
عام لوگوں کے لیے قرآن پاک سورة النساءمیں وصیت کرنے کے بارے میں جو الفاظ ہیں وہ یوں کہ
 ”پیچھے وصیت کے کہ وصیت کر جاوے ساتھ اس کے یا قرض کے “(سورة النساء 4 : 11 )
 لیکن کلا لہ شخص کے بارے میں خاص الفاظ کا اضافہ لکھا گیا
نہیں ضرر پہنچانے والا کسی کو “ (سورة النساء  4 : 12 )
کلالہ شخص کے وارثان میں کیونکہ دوسرے لو گ بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے کلالہ شخص کو خاص ہدایت کی گئی کہ وہ کسی وارث کو وصیت میں نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ وصیت یوں کر سکتا ہے کوکہ فلاں جائیدا د فلاں کی اور فلاں جائیداد فلاں کی وغیرہ کسی وارث کو جائیداد سے محروم رکھتے ہوئے وصیت نہیں کر سکتا اگر کلالہ شخص کسی وارث کو محروم رکھتے ہوئے وصیت کرے گا تو قرآن کے مطابق
 ”پس جو کوئی ڈرے وصیت کرنے والے سے کجی کو یا گناہ کو پس اصلاح کر دے درمیان ان کے پس نہیں گناہ اوپر اس کے تحقیق اللہ بخشنے والا مہربان ہے“ (سورة البقرہ 2 : 182 )
وصیت کے ذریعے جب کوئی شخص اپنے نا فرمان بیٹے کو عاق کر سکتاہے تو وصیت کے ذریعے اپنے کسی بہت زیا دہ خدمت کرنے والے بیٹے کو وراثت میں سے کچھ زیادہ حصہ بھی دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی شخص کے پا س ایک لاکھ مالیت کی بندوق ( منقولہ جائیداد ) ہے اوروہ شخص وصیت کر دے کہ میرے فوت ہونے پر یہ بندوق میرے فلاں بیٹے کی ہو گی تو اس کے فوت ہونے پر وہ بندوق اُسی بیٹے کو ملے گی جس کے بارے میں وصیت میں کہا گیا تھااور دوسرے وراثت میں حق دار اُس بندوق کی قیمت کا حصہ نہ مانگ سکیں گے۔ وصیت اور حصوں کی تقسیم کہ مرد برابر دو عورتوں کے وغیرہ کی حیثیت ایسے ہے جیسے وضو کے بارے میں کہ پانی کے ہونے کی صورت میں تیمم کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح وصیت ہونے کی صورت میں سورة النسا ءمیں تحریر حصوں کی حیثیت ختم ہو جا تی ہے ۔
         
سوال: وصیت کے بارے میں یوں ہے کہ وصیت فقروں غلاموں اور غیروں لیے ہوتی ہے حقیقی وارثوں کے لیے نہیں ہوتی۔ آپ نے حقیقی وارثوں (بیٹوں ،بیٹیوں ) کے بارے میں بھی وصیت کرنے کا حق دے دیا ۔
جواب: عاق کرنا وصیت ہے کہ جس سے حقیقی وارث کو عاق کیا جاسکتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حقیقی وارثوں کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے ۔ بائبل کی کتاب پیدایش میں حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد کو وصیت کے ذریعے زیادہ میراث ان الفاظ میں دیا۔
پیدایش:باب 48:22۔اور میں تجھے تیرے بھائیوں سے زیادہ ایک حصہ جو میں نے اموریوں کے ہاتھ سے اپنی تلوار اور کمان سے لیا دیتا ہوں

ذوالقرنین کون؟






ذوالقرنین کون؟
تحریر و تحقیق:
محمد اکبر اللہ والے، مظفرگڑھ







PDF File Link


Alternative Link of PDF File

READ ONLINE / DOWNLOAD






ذوالقرنین کون؟

ذوالقرنین کون تھا؟ یہ سوال ابھی تشنہ تھا کسی محقق نے سکندر اعظم کو ذوالقرنین کے خطاب سے نوازا بعض نے اس نام کو سائرس کے نام سے منسوب کیا لیکن انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا، دائرہ معارف اسلامیہ اور دیگر تحقیقی کتب بھی ذوالقرنین کے بارے میں قاری کو مطمئن کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ لیکن قرآن حکیم اس سلسلہ میں سیر حاصل مواد فراہم کرتا ہے۔ قرآن پاک کی مختلف آیات (باتیں) اور بائبل میں واضح اشارے موجود ہیں کہ ذوالقرنین دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب تھا۔ یہ نہ تو سائرس کا نام تھا اور نہ ہی کبھی سکندر اعظم کا خطاب ذوالقرنین رہا ہے۔ میں اپنے اس فکر و خیال کو زبردستی ٹھونسنے کی بجائے دلائل کے ذریعے واضح کرنا چاہوں گاکہ ذوالقرنین دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہی خطاب تھا۔ ذوالقرنین سے متعلق قرآن حکیم میں جو بھی آیات ہیں اُن کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔
اور سوال کرتے ہیں تجھ کو ذوالقرنین سے کہہ شتاب پڑھوں گا میں اوپر تمہارے اس میں سے کچھ مذکور۔83۔ تحقیق ہم نے قدرت دی تھی اس کو بیچ زمین کے اور دی تھی ہم نے اس کو ہر چیز سے راہ۔84۔ پس پیچھے چلا ایک راہ کے ۔85۔یہاں تک کہ جب پہنچا جگہ ڈوبنے سورج کے پایا اس کو ڈوبتا تھا بیچ چشمے کیچڑ کے اور پایا نزدیک اس کے ایک قوم کو کہا ہم نے اے ذوالقرنین یا یہ کہ عذاب کرے تو ان کو اور یا یہ کہ پکڑے تو بیچ ان بھلائی۔86۔کہاایپر جو شخص ظالم ہے پس البتہ عذاب کریں گے ہم اس کوپھر پھیر اجاوےگا طرف رب اپنے کی پس عذاب کرے گا اس کو عذاب بڑا۔87۔اور ایپرجو شخص کہ ایمان لایا اور عمل کیے اچھے پس واسطے اس کے بطریق جزا کے ہے نیکی اور البتہ کہیں گے ہم اس کو کام اپنے سے آسانی ۔88۔پھر پیچھے چلا اور راہ کے۔89۔یہاں تک کہ جب پہنچا جگہ نکلنے سور ج کی پایا اس کو نکلتاہے اوپر ایک قوم کے کہ نہی کیا ہم نے واسطے ان کے درے اس سے پردہ۔90۔اسی طرح تھا اور تحقیق گھیر لیا تھا ہم نے ساتھ اس چیز کے کہ نزدیک اس کے تھی خبرداری کر۔91۔پھر پیچھے پڑا اور راہ کے۔92۔یہاں تک کہ جب پہنچا درمیان دو دیوار کے پایا درے ان دونوں سے ایک قوم کو کہ نہیں نزدیک تھے کہ سمجھیں بات کو ۔93۔کہا انہوں اے ذوالقرنین تحقیق یا جوج اور ماجوج فسادکرنے والے ہیں بیچ زمین کے پس آیا کر دیویں ہم واسطے تیرے کچھ مال اوپر اس بات کے کہ کر دیوے تو درمیان ہمارے اور درمیان ان کے ایک دیوار ۔94۔کہا جو کچھ قدرت دی ہے مجھ کو بیچ اس کے رب میرے نے بہتر ہے پس مدد کرو میری ساتھ قوت کے کر دوں میں درمیان تمہارے اور درمیان ان کے دیوار موٹی۔95۔لاؤ میرے پاس ٹکڑے لوہے کے یہاں تک کہ جب برابر کر دیا درمیان دونوں پہاڑوں کے کہا پھونکو یعنی دھونکو یہاں تک کہ جب کر دیا اس کو آگ کہا لے آؤ میرے پاس ڈالوں اوپر اس کے تانبا گلا ہوا ۔96۔پس نہ کر سکیں کہ چڑھ آویں اوپر اس کے اور نہ کر سکیں کہ سوراخ کریں اس میں۔97۔کہا یہ مہربانی ہے پروردگار میرے کی پس جب آوے گا وعدہ پروردگار میرے کا کردے گا اس کو ریزہ ریزہ اور ہے وعدہ رب میرے کا سچ۔98“ ( سورة الکہف / 83:18تا 98)
دلیل اول
 یہ کہ سورہ الکہف کی آیات 83تا98 میں ذکر ہے کہ ذوالقرنین نے سورج ڈوبنے کی جگہ یعنی زمین کی مغربین اور سورج نکلنے کی جگہ زمین کی مشرقین تک کا سفر کیا۔ زمین کی مشرقوں اور زمین کی مغربوں تک کا سفر کرنا عام آدمی کے لیے ممکن نہ تھا ۔تاہم اس قسم کا سفرحضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ممکن اور آسان تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہو اپر بھی حکمرانی عطا فرمائی تھی کہ وہ ہوا کو حکم دے کر جہاں چاہتے جا سکتے تھے ثبوت
پس مسخر کیا ہم نے واسطے اس کے باد کو چلتی تھی ساتھ حکم اسکے کے ملائم جہاں پہنچنا چاہتا “ (سورة ص / 36:38)
 اب آئیے سورہ سبا کی آیت نمبر 12کی طر ف
اور واسطے سلیما ن کے مسخر کیا باد کو کہ صبح کی سیر اسکی ایک مہینہ کی راہ اور شام کی سیر اُسکی ایک مہینہ کی راہ ۔۔۔“ (سورة سبا / 12:34)
توجہ: حضرت سلیمان علیہ السلام کی صبح کی سیر اور شام کی سیر ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی کہ جب ٹرانسپورٹ کی ایجاد نہ ہوئی تھی اگر عام قافلہ سفر پر نکلے تو ایک دن میں تیس میل آرام سے طے کر لے اس طرح ایک ماہ کی مسافت کم و بیش نو سو میل بنتی ہے۔ جب ایک انسان یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام صبح کی سیر اور شام کی سیر میں نو سو یا ہزار میل کا سفر طے کر سکتے ہیں اگر وہ سفر پر نکلیں تو ضرور زمین کی مشرقوں اور زمین کی مغربوں تک کا سفر آسانی سے کر سکتے تھے اور سفر کیا۔ لہٰذا ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کا خطاب ہے۔

دلیل دوئم
 سورہ الکہف کی ان آیات میں فرمایا گیا
کہا ہم نے اسے ذوالقرنین یا یہ کہ عذاب کرے تو اُن کو اور یا یہ کہ پکڑے تو بیچ ان کے بھلائی “ (سورة الکہف / 86:18)
یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ ذوالقرنین کا مسلسل اللہ تعالیٰ سے رابطہ تھا اور ان پر وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے پیغام اترتے تھے۔ جو اس بات کی قوی دلیل ہے کہ ذوالقرنین محض ایک بادشاہ ہی نہیں بلکہ خدا کے ایک بر گزیدہ نبی بھی تھے اس طرح یہ بات بھی حضرت سلیمان علیہ السلام پر صادق آتی ہے کہ وہ بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ جبکہ سکندر اعظم اور سائرس کے بارے میں کوئی ایسی شہادت نہیں پائی جاتی جو اس بات کو ثابت کرے کہ یہ جرنیل یا بادشاہ نبی تھے۔ یہ بات بھی قرآن پاک سے ثابت ہے کہ ذوالقرنین قیامت یعنی یوم حساب سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ قیامت کے بارے میں معلومات ہونا بھی ذوالقرنین کے نبی ہونے کی دلالت کرتا ہے کہ آیت 98 میں ذوالقرنین نے کہا
 ”پس جب آوے گا وعدہ پروردگار میرے کا کر دے گا اس کو ریزہ ریزہ “ ( سورة الکہف / 98:18)

دلیل سوئم
سورہ الکہف کی آیت نمبر 92تا98میں ذکر ہے کہ یا جوج ماجوج کی قوم دو پہاڑوں کے بیچ کھلے راستے (درہ)سے دوسری قوم کے علاقے میں داخل ہو کر لوٹ مار کرتے اور واپس چلے جاتے ۔ذوالقرنین کے غیر معمولی اسباب وسائل قوت و حشمت کو دیکھ کر انہیں خیال ہوا کہ ہماری تکالیف و مصائب کا سد باب ان سے ہو سکے گا ۔ انہوں نے اس بارے میں ذوالقرنین سے بات کی اور اس منصوبے پر خرچ آنے والے مصارف کی ادائیگی محصول کی صورت میں ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ذوالقرنین نے جواب میں کہا کہ جو کچھ مقدور دیا ہے مجھ کو رب میرے نے وہ بہترہے سو مدد کرو میری محنت (قوت) میں،بنا دوں تمہارے اور انکے بیچ ایک دیوار موٹی اور لا دو مجھ کو ٹکڑے لوہے کے یہاں تک کہ جب اس لوہے کی بلندی دونوں پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچ گئی تولوگوں کو حکم دیا کہ خوب آگ دھنکو اور جب تانبا تپنے کے بعد پگھلنے لگا تو اس وقت پگھلا ہوا تانبا پہاڑوں کے درمیا ن ڈال دیا۔ جو لوہے کے ٹکڑوںکے درمیان اور پہاڑوں کے درمیان جم گیا اور ایک بہت موٹی تانبے کی دیوار بن گئی اور اس کے بعد یاجوج ماجوج کبھی اس طرف کے علاقے میں داخل نہ ہوسکے ۔
توجہ: ذوالقرنین نے بے شمار وزن کا تانبا پہاڑوں کے درمیان ڈال دیا۔اتنی مقدار میں تانبا وہی شخص ڈال سکتا ہے کہ جس کے پاس بے شمار وزن تانبے کا خزانہ موجود ہو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذوالقرنین کے پاس بے شمار وزن تانبے کا خزانہ تھا جو اس نے استعمال کیا ۔قرآن پاک کی سورة سبا کی آیت نمبر 12میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت( ملک، حکومت یا قبضہ) میں ایک چشمہ ایسا عطا فرمایا تھا کہ جس سے پگھلتا ہوا تانبا بہتا آتا تھا
 ”اور بہا یا ہم نے واسطے اسکے چشمہ گلے ہوئے تانبے کا“ (سورة سبا / 12:34)
جس شخص کی ملکیت میں پگھلتے تانبے کا چشمہ بہتا ہو اس کے لیے پہاڑوں کی مقدار میں تانبا اکھٹا کر لینا کوئی مشکل کام نہیں لہٰذاحضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہاڑوں کے درہ میں ڈالنے کے لیے بے شمار وزن تانبا تھالو ایک اور کڑی مل گئی کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کا خطاب تھا کہ تانبے کا بے شمار خزانہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ہی موجود تھاجو دیوار میں استعمال کیا گیالیکن ایک اور سوال پیدا ہوا کہ پگھلتے بہتے تانبے کا چشمہ کسی اور جگہ ہوگا اور دیوار کسی اور جگہ بہت دور بنائی گی۔ اتنی دور کے مقام سے اتنی یعنی پہاڑ کی مقدار میں تانبا پہنچانا بھی ایک مسئلہ تھا کہ اس زمانے میں نہ سڑکیں ہوتی تھیں اور نہ ٹرانسپورٹ لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے یہ مسئلہ بھی کچھ مسئلہ نہ تھا کہ اِن کے دربار میں ایسے عفریت اور انسان تھے جو ناممکن کام ممکن کر دیکھلاتے تھے ۔جب دربار میں تخت بلقیس لانے کی بات ہوئی تھی تو
 ”کہا ایک دیو نے جنوں میں سے میں لے آں گا تمہارے پاس اس کو پہلے اس سے کہ اٹھو تم جگہ اپنی سے اورتحقیق میں اوپر اسکے البتہ زور آور ہوں با امانت(یعنی دربار برخواست ہونے سے پہلے یا محفل اٹھنے سے پہلے)٭کہا اس شخص نے کہ نزدیک اسکے تھا علم کتاب سے میں لے آؤ نگا تمہارے پاس اس کو پہلے اس سے کہ پھر آوے طرف تمہاری نظر تمہاری “ (سورة النمل / 40,39:27)
اور تخت بلقیس کو لا کر دیکھلایا۔ جو درباری پلک چھپکنے میں بہت دور سے تخت بلقیس اپنے قریب لا سکتا تھا وہی درباری تانبے کو چشمے کے قریب سے پہاڑوں کے درے کے قریب بھی آسانی سے پہنچا سکتے تھے ۔لو ایک اور کڑی مل گئی کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کا خطاب تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور سوال پیدا ہو ا کہ تانبے کو پکھلانے کے لیے بڑی بڑی دیگیں اور کڑاہے چاہیے تھے وہ بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ملتے ہیں
 ” بناتے تھے واسطے اس کے جو کچھ چاہتا تھا قلعوں سے اور ہتھیاروں سے اور تصویر یں اور لگن (کڑاہے )مانند تا لابوں کی اور دیگیں ایک جگہ دھری رہنے والیں “ (سورة سبا / 13:34)
لو ایک اور کڑی مل گئی کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب تھا۔ اس کے علاوہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس کام کرنے والوں میں انسانوں کے علاوہ جنات بھی تھے کہ وہ جن سے بڑے بڑے کرالیتے تھے ۔
 ” اور جنوں میں سے ایک لوگ تھے کہ خدمت کرتے تھے آگے اسکے ساتھ حکم رب اسکے کے “ (سورة سبا / 12:34)
اور مسخر کیے شیطان ہر ایک عمارت بنانے والا اور دریا میں غوطہ مارنے والا “ (سورة ص / 37:38)
 اس آیت مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کارندوں نے عمارات بھی بنائیں اور تانبے کی دیوار ۔ دیوار کا بنانا بھی عمارت کا بنانا کہلاتا ہے لو ایک اور کڑی مل گئی کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کا خطاب ہے۔

دلیل چہارم
 قرآن پاک میں اللہ تعالی کا یہ انداز بیاں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اکثر آیتیں (باتیں ) مختلف انداز سے دوبار یا دو سے بھی زیادہ بار کی گئیں ہیں ۔ پہاڑوں کے در ے سے ورلی قوم نے جب ذوالقرنین کودیوار بنانے کا کہا تو ساتھ یوں بھی کہا کہ
 ”کر دیویں ہم واسطے تیرے کچھ مال “ (سورة الکہف / 94:18)
تو جواب میں ذوالقرنین کے الفاظ یوں تھے کہ
 ” کہا جو کچھ قدرت دی ہے مجھ کو بیچ اس کے رب میرے نے بہتر ہے “ (سورة الکہف / 95:18)
عام مفہوم میں یوں کہا کہ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے مجھے تمہارے مال حاصل کرنے کی کوئی خواہش نہیں ۔اس طرح جب ملکہ سبا نے بہت سے تحفے دے کر جب اپنے آدمی حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجے تو جواب میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے جواب میں کہا
۔۔۔ کیا تم مدد دیتے ہو مجھ کو ساتھ مال کے پس جو کچھ دیا ہے مجھ کواللہ نے بہتر ہے اس چیز سے کہ دیا ہے تم کو بلکہ تم ہی ساتھ تحفہ اپنے کے خوش ہوتے ہو“ (سورة النمل / 36:27)
مطلب یہ کہ میرے پاس اللہ کادیا سب کچھ ہے اور تمہارے تحفوں سے زیا دہ بہتر ہے مجھے تمہارے مال ودولت حاصل کرنے کی نہ خواہش ہے نہ لالچ ۔ان دونوں آیتوں کا انداز بیان ثابت کرتا ہے کہ یہ ایک ہی شخص کے الفاظ ہیںلہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان
 ” اے ذالقرنین یا یہ کہ عذاب کرے تو ان کو اور یا یہ کہ پکڑے تو بیچ ان کے بھلائی“ (سورة الکہف / 96:18)
یہ ہے بخشش ہماری پس بخش دے یا بند کر بغیر حساب کے “ (سورة ص / 39:38)
یہ دو آیات بھی جڑواں آیات لگتی ہیں کہ ایک ہی شخص سے کہا گیا ہے لیکن دو جگہ مختلف انداز سے بات کی گئی ہے۔
بائبل سے واضح پتہ چلتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل ہے لیکن قرآن پاک میں کہیں واضح نہیں لکھا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل ہے۔ لیکن جب قرآن پاک میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل ہے ۔قرآن پاک شاہد ہے کہ نبی کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے اور نبی کو ایک سے زیادہ ناموں سے یاد کیا گیا ہے ۔اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی ذوالقرنین کے نا م سے دیکھلایا گیا ۔ غور فکر کیجیے ۔

دلیل پنجم
 آسمانی کتاب زبور کے باب 72میں سلیمان کا مزمور میں کہا گیا کہ
زبور:باب 72 سُلیمان کا مزمُور۔1۔شا ہزادہ کو اپنی صداقت عطا فرما۔3۔ان لوگوں کے لیے پہاڑوں سے سلامتی کے اور پہاڑیوں سے صداقت کے پھل پیدا ہونگے۔8۔ اُسکی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریائے فرات سے زمین کی انتہا تک ہوگی ۔9۔بیاباں کے رہنے والے اُسکے آگے جھکیں گے اور اُسکے دُشمن خاک چاٹیں گے۔10۔ ترسیس کے اور جزیروں کے بادشاہ نذریں گذرانیں گے۔ سبا اور سیباکے بادشاہ ہدئیے لائیں گے۔ 11۔بلکہ سب بادشاہ اُس کے سامنے سرنگوں ہونگے ۔ کُل قومیں اُسکی مطیع ہونگی
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلا م کے بارے میں دنیا کو اپنی کتاب زبور کے ذریعے آگاہ کر دیا تھا کہ یہ ایسا نبی بادشاہ ہو گا کہ جس کی بادشاہی سمندر سے سمندر تک یعنی زمین کی مشرقوں سے زمین کی مغربوں تک ہو گی اور پہاڑوں سے سلامتی الفاظ سے اشارہ ملتا ہے کہ پہاڑوں کا درہ بند کرکے وہاں کا فساد ختم کرکے سلامتی پیدا کرے گا ۔ ذوالقرنین کے حوالے سے قرآن پاک میں جو تذکرہ ہے وہ بالکل زبور میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں بیان کردہ حالات و واقعات اور خواص پر بالکل منطبق ہے ۔ یہ دلیل ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب ہے ۔
ذوالقرنین کے معنی دو سینگوں والا ہے ۔ تاج میں سینگ لگا نا اس وقت عظمت حشمت دبدبے کی نشانی سمجھا جاتا تھا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلا م جب سیر یا سفر کو نکلتے اور ہوا میں اڑتے سفر کرتے تو دور دراز کے جو لوگ آپ کا نام نہ جانتے تھے وہ آپ کے ا و پر دو سینگوں والا تاج دیکھ کر آپ کو ذوالقرنین کہتے جیسا کہ درہ کے قریب کے لوگ کہ جن کے لیے دیوار بنائی وہ آپ کی زبان بھی نہ جانتے تھے انہوں نے آپ کو ذوالقرنین کہا
کہا انہوں نے اے ذوالقرنین“ ( سورة الکہف / 94:18)
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں سروں پر سینگوں کا تاج یا ٹوپا لگا یا جاتا تھا ۔ جواب اس کا زبور باب 75 میں مل جاتا ہے کہ واقعی اس دور میں سردار قسم کے لوگ سروں پر سینگوں والا تاج یا ٹوپا پہنتے تھے کہ فرمایا گیا ۔
 ”زبور: باب 75:4۔اور شریروں سے کہ سینگ اونچا نہ کرو ۔5۔اپنا سینگ اونچا نہ کرو۔
10۔ اور میں شریروں کے سب سینگ کاٹ ڈالوں گا۔ لیکن صادقوں کے سینگ اُونچے کیے جائینگے۔
قرآن پاک میں ایک سوال آیا
 ” اور سوال کرے ہیں تجھ کو ذوالقرنین سے “ (سورة الکہف / 83:18)
قرآن پاک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی جواب فرہم کرتا ہے اور کوئی ایسا سوال نہیں کہ جس کے بارے میں قرآن پاک میں خاموشی ہو یا کوئی ابہام پیدا ہو لیکن تلاش کرنے والوں کے لیے اور تحقیق کرنے والوں کے لیے قرآن پاک میں کھلی نشانیاں ہیں ۔
یہ کہ سکندر اعظم نے مشرق میں برصغیر تک سفر کیا اور بیمار ہو گیا اور واپسی کا سفر شروع کر دیا اور راستے میں فوت ہوا لہٰذاثابت ہے کہ سکندراعظم زمین کی مشرق سورج نکلنے کی جگہ نہ پہنچ سکا اور سائرس نے مہمات روانہ کیں خود کم سفر کیا لہٰذا یہ ذوالقرنین نہ ہوئے۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ مجھے سب سے بڑی بادشاہی عطا فرما بمطابق قرآن پاک
 ”کہا اے پروردگار میرے بخش مجھ کو اور دے مجھ کو ملک کہ نہیں لائق ہو واسطے کسی کے پیچھے میرے تحقیق تو ہی ہے بخشنے والا“ (سورة ص / 38:35)
اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس دعا کے نتیجے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو سب سے بڑی بادشاہی عطا کی جو ذوالقرنین کے خطاب سے لکھی کہ آپ کی حکومت مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک تھی۔

اب آئیے قرآن پاک کے ان ترجموں کی طرف
اور مسخر کیے شیطان ہر ایک عمارت بنانے والا اور دریا میں غوطہ مارنے والا “ (سورة ص / 38:37)
اور شیطانوں میں سے مسخر کئے وہ جو غوطہ مارتے تھے“ (سورة الانبیاء / 21:82)

سوال: مندرجہ بالا آیات میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے کارندے جو بڑی بڑی عمارات بناتے تھے اور غوطہ لگاتے تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے شیطان کیوں کہا؟ ٓآخر انہوں نے ایسا کیا کام کِیا تھا کہ قرآن پاک میں ان کے لیے شیطان کے الفاظ آئے؟
جواب: جواب کے لیے ہمیں سارے پس منظر میں جانا پڑے گا۔ یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین کی صبح او ر شام کی سیر ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی۔ بائبل سے ہمیں پتہ چلتاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین کا دارالخلافہ دریائے فرات کے قریب تھا کیونکہ فرمایا گیا۔
زبور:باب 72 سُلیمان کا مزمُور۔8۔ اُسکی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریائے فرات سے زمین کی انتہا تک ہوگی
اور سورة سبا میں فرمایا گیا
اور واسطے سلیما ن کے مسخر کیا باد(ہوا) کو کہ صبح کی سیر اسکی ایک مہینہ کی راہ اور شام کی سیر اُسکی ایک مہینہ کی راہ“ (سورة سبا / 34:12)
 یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا گیا تھا کہ ان کی صبح کی سیر اور شام کی سیر ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام دریائے فرات سے جب سیر کرنے کے لیے پاکستان کی طرف آتے تھے تو ان کی سیر کرنے کی حد کوہ سلیمان تھا۔ اس کوہ کانام کوہ سلیمان حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین کے نام پر رکھا گیا تھا اور آج تک ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین نے اترنے کے لیے کوہ سلیمان کی چوٹی کو اوپر سے اس طرح کٹوایا دیا تھا کہ وہ جگہ ایک میدان کی طرح ہموار رہے اس لیے کو ہ سلیمان کی چوٹی کا نام تخت سلیمان ہے اور مشاہدہ کرنے والوں نے اس جگہ کو دیکھا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے شیطان سے کون سی عمارتیں بنوائیں۔ پہاڑ کی چوٹی کا کٹاہوا حصہ اورا حرام مصر کا نقشہ ایک جیسا بنتا ہے کہ جیسے کسی پہاڑ نے بہت بڑے پتھر کاٹ کر لا کر احرام مصر بنائے گئے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بنائی ہوئی عمارات لازمی بات ہے عجوبے ہونگے اور اس علاقے میں عمارات میں عجوبے احرام مصر نظر آتے ہیں جو کہ ظاہر ہے حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین نے ہی بنائے ہونگے اور یہ کام شیطان جنات سے کرایا کہ یہ احرام مصر کا بنانا اس وقت انسانی کام نظر ہی نہیں آتا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے وہ شیطان کارندے کہ جن کواللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے بس میں کر دیا تھا وہ مجبور تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد انہوں نے شیطانی کام یہ کیا کہ احرام مصر کے ساتھ ابوالہول بت کا مجسمہ بھی بنا دیا تا کہ بعد کے آنے والے لوگوں کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا فر اور بت پرست تھے”نعوذ باللہ “اور یوں ہوا بھی کہ بعد میں یہود کے کچھ لوگوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جادوگر وغیرہ کہا ور اللہ کا نبی نہ مانا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کارندوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں شیطان اس لیے کہا کہ انہوں نے حضرت سیلمان علیہ السلام کی وفات کے بعد شیطانی کام کیے اور بت ابو الہول بنایا۔

ذوالقرنین کون کی یہ تحریر یہ بندہ اخبار نوائے وقت میں6 جون 1995میں چھپوا چکا ہے اس سے پہلے 8فروری 1995مقامی ہفت روزہ اخبار جلوس میں اور قومی آواز میں 5جون 1995میں چھپوا چکا ہے اور اس کتاب کی کئی تحریریں مقامی ہفت روزہ اخباروں میں چھپوا چکا ہے ۔ اس کتاب دوسرا ایڈیشن میں یہ تحریر ذوالقرنین کون ؟ چوتھی بار چھپ رہی ہے۔