پی ڈی ایف فائل
نکاح
(یونی کوڈ اُردو میں)
تحریروتحقیق: محمد
اکبر اللہ والے، مظفرگڑھ
فہرستِ مضامین
نکاح
نکاح سے پہلے کا مرحلہ(منگنی)
نکاح
نکاح کے وقت ساز بجانے کا جواز
شادی کے لیےدُعا
مہر
جہیز
ایک وقت میں بیویوں کی حد
متعہ (عارضی نکاح)
چندمسائل اوراُن کے جوا بات
نکاح
انسانی معاشرے میں نکاح کا مرحلہ خاص اہمیت
کا حامل ہے کہ اگر فریقین میں نکاح ہونا اچھا ثابت ہو جائے تو ساری زندگی کاآرام و
سکون ہوتا ہے اور خدانخواستہ نکاح ہونا اچھا ثابت نہ ہو تو بمطابق
”بائبل :امثال: باب
19 :13 ۔بیوی کا جھگڑا رگڑا سدا کا ٹپکا “
اس لئے اللہ تعالیٰ نے نکاح کے بارے میں
قرآن پاک میں بہت تفصیل بیان فرمائی ہے ۔
نکاح سے پہلے کا مرحلہ(منگنی)
ترجمہ قرآن پاک کی آیت سورة البقرة 2 : 235
”اور نہیں گناہ
اوپر تمہارے بیچ اس چیز کہ پردہ کیا تم نے ساتھ اس کے منگنے عورتوں کے سے یا چھپا
رکھا تم نے بیچ جانوں اپنی کے جانتا ہے اللہ یہ کہ تم البتہ ذکر کرو گے ان کا اور
لیکن مت وعدہ دو ان کو چھپے ہوئے مگر یہ کہ کہواُن کو ایک بات اچھی اور مت محکم
کرو گرہ نکاح کی یہاں تلک کہ پہنچے لکھا ہوا حکم خدا کا وقت اپنے کو اور جانو یہ
کہ تحقیق اللہ جانتا ہے جو کچھ بیچ جی تمہارے کے ہے پس ڈرو اس سے اور جانو یہ کہ
اللہ ٰ بخشنے والا تحمل والا ہے “ (سورة البقرة 2 : 235 )
اس آیت میں لفظ آیا ”منگنے عورتوں کے سے “
سیاق و سباق کے حوالے سے بات بیواؤں کے بارے میں ہو رہی ہے قرآن پاک کا ایک یہ بھی
انداز ِ بیان ہے کہ خاص کے بارے میں بات کی جاتی ہے لیکن وہ حکم عام ہوتا ہے جیسا
کہ اگلے الفاظ سے ثابت ہو گیا کہ ”مت محکم کرو گرہ نکاح کی یہاں تلک کہ پہنچے لکھا
ہوا حکم خدا کا وقت اپنے کو “ ان الفاظ سے ثابت ہو جاتا ہے کہ منگنی دین اسلام میں
فرض ہے ۔
نکاح سے پہلے منگنی اس لئے فر ض قرار دی
گئی کہ فریقین ایک دوسرے کو پرکھ لیں کہ جن لوگوں میں ہم رشتہ داری کر رہے ہیں وہ
لوگ اچھی شہرت کے مالک ہیں یا بُری شہر ت کے ۔اچھے لوگ ہیں یا بُرے لوگ۔ کیونکہ
اِس آیت کے آخر میں فر مایا گیا ہے کہ ”جو کچھ بیچ جی (دل میں )تمہارے کے ہے “ ہر
انسان اور گھر کنبے والے کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اُن کی رشتہ داری کہیں غلط
قسم کے لوگوں میں نہ ہوجائے ۔
یہ منگنی اور نکاح کے درمیان کا عرصہ (وقفہ
) صرف اسی لئے ہے کہ فریقین ایک دوسرے کی طرف سے اطمینان کر لیں کہ فریقین اچھے
قسم کے لوگ ہیں ۔اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کا انتظار کیا جائے کہ اس منگنی
والوں کے نکاح میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید اور اجازت ہے کہ نہیں کیونکہ اس
آیت سورة البقرة 2 : 235 میں خاص طور پر لکھا گیا ہے کہ ”اور مت محکم کرو
گرہ نکاح کی یہاں تلک پہنچے لکھا ہوا حکم خدا کا وقت اپنے کو “ ۔اب سوال یہ پیدا
ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تم تک کیسے پہنچے گا کہ تمہیں پتا چلے کہ دوسرے لوگ جن
میں تم نے منگنی کی ہے اچھے لوگ ہیں یا بُرے لوگ؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے
پاس ڈاک آنے سے تو رہی ۔اس کے لیے تمہیں عقل لڑاتے ہوئے اپنی طرف سے دوسرے فریق کے
بارے میں خوب تحقیق کرنی ہوگی ۔اگر اچھے لوگ ہیں تو صاف ظاہر ہو جائے گا اور اگر
بُرے لوگ ہیں تو پھر بھی اللہ کے حکم سے صاف ظاہر ہو جائے گا ۔اگر دوسرے فریق میں
کوئی بُرائی ظاہر نہ ہو تو سمجھ لو کہ اللہ کی طرف سے نکاح کر لینے کی اجازت ہے
اور اگر برائیا ں نکل آئیں تو سمجھ لو کہ اس نکاح میں اللہ تعالیٰ کی تائید نہیں
ہے ۔اگر تم اللہ تعالیٰ کی تائید کے خلاف نکاح کرو گے تو وہ نکاح کامیا ب نہ ہوگا
اور فساد رہے گا ۔ایسے فساد کی صورت میں آپ اللہ تعالیٰ سے گلہ نہیں کر سکتے کہ
تمہارے علم میں پہلے آچکا تھا کہ دوسرے فریق غلط قسم کے آدمی ہیں ۔
اگر دوسرے لوگ بُری قسم کے ہیں تو منگنی
توڑ دو ۔اسی لئے عقل مند لوگوں نے منگنی کو کچا دھاگہ کہا ہے کہ جب چاہے توڑ دیا
جائے یا ٹوٹ سکتا ہے اورمنگنی ٹوٹنے کا بُرا نہیں ماننا چاہیے کہ ساری زندگی کے
روگ سے یہ منگنی کا ٹوٹ جا نا بہتر اور معمولی بات ہے ۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم
منگنی کی رسم پر خرچہ نہ کریںبلکہ صر ف منگنی کا اعلان ہونا کافی ہے۔ منگنی کے وقت
اللہ تعالی سے دُعا مانگی جائے کہ اے اللہ اس منگنی والوں کے نکاح کرنے میں تیری
طرف سے تائید اور اجازت ہو تو نکاح ہونے دینا اور اے اللہ اگر تیری طرف سے تائید
اور اجازت نہ ہو تو اور ان کے نکاح ہونے میں بُرائی اور فساد ہو تو اپنی مہربانی
سے ایسے حالات پیدا کر دینا کہ ہم منگنی ختم کر دیں۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ
15شعبان کو اللہ تعالیٰ دنیا والوں کے بارے میں فیصلے فرماتے ہیں (مصنف نے اس
مضمون کو لکھنے کے بعد ایک اور مضمون سورة القدر کے نام سے لکھا تھا، جس کے مطابق
دنیا والوں کے فیصلے شب قدر میں ہوتے ہیں۔ امین اکبر)۔اسی لئے عقلمند لوگوں نے کہا
ہے کہ نکاح کے فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں ۔15 شعبان(آخری عشرہ رمضان) کو بھی منگنی
والوں کے بارے میں یہی دُعا کہ جو اُوپر لکھ دی گئی ہے ضرور مانگی جائے ۔منگنی اور
نکاح کے عرصہ میں شعبان (رمضان )کا مہینہ ضرور گزارنا چاہیے ۔لہٰذا منگنی اورنکاح
کے وقفے کا عرصہ تقریباً چھ ماہ یا ایک سال کا ہونا چاہیے تاکہ تحقیق کیلئے خوب
موقع ہو ۔
تحقیق کرنے والے جب نکاح کے معاملے میں کسی
سے تحقیق کیلئے لڑکے یا لڑکی کے بارے میں گواہی مانگیں تو گواہی دینے والے سچ
گواہی دیں کہ قرآن پاک میں فرمایا
”اے لوگوجو ایمان
لائے ہو ہو جاؤ تم قائم رہنے والے ساتھ انصاف کے گواہی دینے والے واسطے خدا کے اور
اگرچہ اوپر جانوں اپنی کے ہو یا اوپر ماں باپ کے اور قرابت والوں کے “(سورة النساء
4 : 135)
اکثر ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لڑکے
یا لڑکی کی تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں جھوٹ بول دیا جاتا ہے ۔اگر معاملے میں گڑ
بڑ ہو اور گواہ سامنے نہ آنا چاہتا ہو تو کہہ دے کہ کسی اور سے گواہی لے لو کہ
تحقیق کرنے والا سمجھ لے کہ معاملہ گڑ بڑ ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید اور اجازت
ہونے کا تو اس طرح علم ہو جاتا ہے کہ فریقین میں کسی قسم کی برائی نہ نکلے ۔لیکن
یہ معلوم کرنے کیلئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید اور اجازت نہیں ہے خاصی سوچ
بچار اور عقل لڑانے کی ضرورت ہے ۔
کسی بھی نکاح میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے
تائید اور اجازت نہ ہونے کی صورت میں یو ں ہوتا ہے کہ
1۔ منگنی کے موقع پر ضد ہونا کہ یہ نکاح ضرور
ہوگا ۔
2۔ منگنی کے فوراً بعد نکاح کرنا جیسے چٹ
منگنی پٹ بیاہ۔
3۔ منگنی کا نہ کرنا اور جلد بازی میں نکاح
کرا دینا کہ جلدی کا کام شیطان کا ۔
4۔ وٹہ سٹہ (بدلے میں ) کسی کا زبردستی نکاح
کرا دینا۔
5۔ تحقیق ہی نہ کر نا ۔
6۔ منگنی کے بعد لڑکے کا پولیس میں کسی غلط
کیس میں جرم کرتے ہوئے پکڑا جانا ۔
7۔ لڑکے یا لڑکی کی بد زبانی یا بد اعمالی کے
بارے میں کئی لوگوں کا گواہی دینا یا اُن لوگوں کاجنہوں نے منگنی کرائی تھی ۔
8۔ لڑکے یا لڑکی کا نکاح کر نے پر راضی نہ
ہونا ا ور زبر دستی نکاح کرا دینا۔
9۔ شادی کی تاریخ مقرر ہونے کے بعد فریقین میں
سے غلط قسم کے مطالبے کرنا ۔جہیز وغیرہ کا منہ سے مانگنا یا برَی میں یہ ضرور ہو
وغیرہ ورنہ ۔۔۔
10۔ تاریخ مقر ر ہونے کے بعد کسی فریق کا تاریخ
بڑھانے کا مطالبہ ۔فوراً سمجھ جاؤکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید نہیں کہ بات آگے
ٹال دی ۔
11۔ نکاح سے پہلے کسی فریق کی زبان سے یہ نکلنا
کہ (جاؤ) ہم نکاح(شادی) نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ ۔
اللہ تعالیٰ کے حکم سے اکثر ایسا ہوتا ہے
کہ غلط فریق کے ذریعے انکار کا سبب بن جاتا ہے ۔ایسے حالات ہوں تو تم فوراً منگنی
کو توڑ دو۔یہ فقرہ شیطانی ہے کہ سگائی( منگنی) نہ ٹوٹے بے شک بیاہی (نکاح والی )
چھوٹ جائے ۔حضور اکر م حضر ت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح کرنا
عورتوں کو کنیز (لونڈی ) بنا دینا ہے تو دیکھ لیا کرو کہ اپنی لڑکی کو کہاں دے رہے
ہو ۔
اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ
کی تائید اور اجازت کا نہ ہونا ظاہر ہونے کے باوجود جہالت پر قائم رہتے ہوئے اللہ
تعالیٰ کی مرضی کے خلاف اپنی عزت کو آڑے لے آتے ہیں اور انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں
کہ اگر منگنی ٹوٹ گئی تو ہماری عزت خاک میں مل جائے گی ،برادری میں بدنام ہو جائیں
گے یاناک کٹ جائے گی وغیرہ ۔ یہ اپنی عزت کو آڑے لے آنے کا ذکر قرآن پاک کی سورة
البقرہ کی آیت نمبر206 میں موجود ہے کہ
”اور جب
کہا جاتا ہے واسطے اسکے ڈر اللہ سے پکڑتی ہے اس کو عزت ساتھ گناہ کے“ (سورة البقرة
2 : 206 )
اے اللہ کے بندو انسان کی اپنی بھلا اپنی
کیا عزت ہے کسی بھی وقت ذلیل ہو سکتا ہے اور ایسی عزت بنانے کا بھی کیا فائدہ جس
میں اُُس کی اولاد ساری زندگی تکلیف پائے اور خو د بھی پچھتائے ۔یہ کہ اس بندہ(
راقم) کے مشاہدے ہیں کہ منگنی کرانے والے نے کہا منگنی توڑ دو لیکن اپنی عزت کو
آڑے لاتے ہوئے اور دوسروں کے دباؤمیں آتے ہوئے نہ توڑی اور بعد میں پچھتایا اور یہ
کہ چٹھی لکھنے (نکاح کی تاریخ مقرر کرنے ) کے بعد دوسرے فریق لڑکے والے کی طرف سے
تاریخ بڑھانے کا کہنا (یہ کہ کارڈ وغیرہ چھپ چکے ہوتے ہیں ) لڑکی والا اپنی عزت کو
آڑے لاتے ہوئے منت کرکے وقت مقررہ پر نکاح کرایا اور بعد میں پچھتایا کہ نکاح سے
پہلے مجھے اللہ تعالیٰ نے منگنی توڑنے کا موقع دیا تھا کاش اُس وقت میں منگنی توڑ
دیتا ۔
ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ لڑکا دوسرے
ملک سے آیا ہے ۔جلد اور فوراً نکاح کر نا چاہتا ہے کہ اُس نے واپس بھی جانا ہے بہت
دولت مند ہے وغیرہ وغیرہ، ورنہ ہاتھ سے نکل جائے گا ۔بیوقوف لوگ جلدی میں لڑکی کا
نکاح کروا دیتے ہیں بغیر کسی تحقیق کے ۔تحقیق تو کرہی نہیں سکتے کہ دوسر ے ملک جا
کر اس بارے میں تحقیق کریں ۔پھر یہ ہوتا ہے کہ صحیح حالات معلوم ہوتے ہیں کہ لڑکا
تو دوسرے ملک میں لڑکیوں کو فروخت کرنے والا ہے ۔پھر گھر والے روتے ہیں کہ ہائے
اللہ یہ کیا ہو گیا ہم نے ایسا کیا گناہ کیا تھاکہ اتنی بڑی سزا ملی وغیر ہ، اور
نہیں سوچتے کہ کیا وہ نکاح اللہ تعالیٰ کی تائید اور اجازت کے مطابق تھا ۔
تحقیق کرنے کیلئے واضح طور پر قرآن میں بھی
فر مایا گیا پڑھیں سورة النساءکی آیت نمبر6کا ترجمہ
”اور
آزمایا کرو یتیموں کو یہاںتک کہ جب پہنچیں نکاح کو ۔۔۔“ ( سورة النساء 4 : 6)
یہ آیت خاص یتیموں کے بارے میں لکھ دی گئی
ہے لیکن حکم عام ہوتا ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اندازِ بیان ہے
کہ خاص کے بارے میں بات کر دی جاتی ہے ۔ ایسا شخص کہ جس نے بچپن سے یتیمی کے دن
گذارے ہوں کے بگڑ جانے کا خطرہ زیا دہ ہوتا ہے کہ اُس کے سر پر ماں باپ نہیں ہوتے
اور اکثر فراڈ سے نکاح کرنے کیلئے یتیم بن کر آتے ہیں کہ نہ اُس کے ماں باپ ہیں
اور نہ ہی کوئی بہن بھائی ہے ۔ماں باپ تو چھوڑئیے شادی شدہ ہونے کے باوجوداپنے آپ
کو کنوارہ ظاہر کرتے ہیں ۔اگر ماں باپ بہن بھائی کو ظاہر کریں تو ان کے فراڈ صاف
ظاہر ہو جائیں گے ۔گربہ مسکین کی صور ت آتے ہیں ۔
آزمانے کا حکم عام مسلمانوں کو بھی ہے نہ
کہ صرف بیٹی والے کو ۔
توجہ کریں قرآن پاک کی سورة النور کی آیت
نمبر 33کا ترجمہ
”اور
چاہیے کہ پاک دامنی کریں وہ لوگ کہ نہیں مقدر پاتے نکاح کا یہاں تک کہ غنی کرے گا
ان کو اللہ فضل اپنے سے “ (سورة النور 24
: 33)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کہ جس
کے پاس مال و دولت نہ ہو یعنی با لکل غریب ہو نکاح کرنے سے منع فر مایا ہے۔ اس آیت
میں بیٹی والو ں کو بھی حکم ملتا ہے کہ اگر کوئی پھکڑ اس آیت کے مطابق عمل نہ کرتے
ہوئے بھی نکاح کر نا چاہتا ہے تو تم اپنی لڑکی اُس کو نکاح میں مَت دو ۔ تم تحقیق
کر لو کہ نکاح کر نے والاکہیں بالکل بھوکا پھکڑ تو نہیں وغیرہ مطلب یہ کہ مشتری
ہوشیار باش ۔ لہٰذا آزمائے تحقیق کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ آمدنی کا
ذریعہ ہے کہ نہیں مثلاً ملازم ہو کہ باقاعدہ تنخواہ ملتی ہو یا کوئی اچھا سا
کاروبار ہواور اُس کی شرافت کی کئی آدمی گواہی دیں ۔ یہ تمام تحقیق اصل فریقین کہ
جن کی آپس میں منگنی ہوئی ہے کے گوش گذار ضرور کرنی دینی چاہیے ۔
توریت پیدائش باب24میں واقعہ کہ جب اسحاق
بن ابراہیم کے نکاح کیلئے ربقہ کے باپ یسوایل اور بھائی لابن سے بات کی گئی تو
انہوں نے مکمل اختیار لڑکی ربقہ کو دیا کہ جو اُس کی مرضی ہوگی ۔اس سے ہمیں سبق
ملتا ہے کہ نکاح کیلئے لڑکی کی مرضی کو فوقیت حاصل ہے نہ کہ کسی دوسرے کو ۔
قرآن پاک کی سورة النساءکی آیت نمبر 3کے
شروع میں فر مایا ۔
” اور اگر ڈرو تم
(شرمندگی سے ) یہ کہ نہ انصاف کرو گے بیچ یتیم عورتوں کے پس نکاح کرو جو خوش لگے
تم کو سوائے اُن کے عورتوں سے “ (سورة النساء 4 : 3 )
اس آیت میں عربی زبان میں لفظ خفتُم ( خفت
)آیا ہے ۔ جس کا مطلب شرمندگی بنتاہے ۔مفہوم یوں کہ بعض دفعہ لڑکی یتیم ہو جاتی ہے
چھوٹی عمر میں۔ اُس کا خاص والی وارث بھی نہیں ہوتا تو بعض عمر رسیدہ لوگ چاہنے
لگتے ہیں کہ ان یتیم لڑکیوں سے نکاح کر لیں۔ ایسے افراد کو اللہ تعالیٰ اس طرح
توجہ دلاتا ہے کہ اگر تم نکاح کر لو گے تو پھر یوں ہو گا کہ وہ لڑکی تو جوان ہوتی
جائے گی جوبن پر اور تم بوڑھے ہوتے چلے جاؤگے اور حقوق زوجیت پورے نہ کر سکو گے
اُس لڑکی کی مرضی کے مطابق پھر تمہیں شرمندگی ہوگی اور یہ کہ تم حقوق زوجیت پورا
کرنے میں انصاف نہ کر سکو گے۔ اس لئے اگر تم نکاح کر نا چاہتے ہو تو اور عورتیں
ہیں کہ جن سے تم نکاح کر سکتے ہویعنی تمہاری ہم عمر ۔جیسا کہ قرآن پاک میں فر مایا
”اور نکاح کر رانڈ
وں(بیوہ عورتیں )کو اپنے میں سے اور لائق والو ں کو غلاموں اپنے میں سے اور
لونڈیوں اپنی میں سے ۔۔۔“ (سورة النور 24 : 32 )
ان آیات سے ہمیں سبق ملا کہ منگنی کر تے
وقت فریقین میں موازنے کا بھی خیال رکھا جائے کہ اُن کی عمریں تقریباًبرابر ہوں
تعلیمی معیار برابر کا ہو ۔اُن کا رہن سہن کا معیار برابر کاہووغیرہ وغیرہ ۔
حدیث کی رو سے نکاح سے پہلے اس بات کی
اجازت ملتی ہے کہ لڑکا لڑکی یا مرد عورت ایک دوسرے کو دیکھ لیں اور باتیں کر لیں ۔
نکاح
نکاح کیلئے مر د عورت کا ایجاب و قبول
ضروری ہے اگر مرد کسی عورت سے کہے کہ میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور عورت کہے
کہ مجھے قبول ہے تو نکاح ہو گیا ۔نکاح کیلئے دو گواہ اور سر عام اعلان کر نا ضروری
ہے ۔جن عورتوں سے نکاح کیا جا سکتا ہے اور جن عورتوں سے نکاح نہیں کیا جا سکتا اس
کی تفصیل قرآن پاک کی سورة النسا ءکی آیت نمبر22تا 25 میں موجود ہے۔
نکاح انسان پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے اس
لئے نکاح کے موقع پراللہ تعالیٰ کی حمد وثنا ءاور ذکر ضروری ہے ۔ سرِ عام اعلان
میں یہ باتیں شامل ہیں جھنڈیا ں لگانا ،بجلی کی مرچیں وغیرہ ،تمبو لگانا ،اکٹھ
کرنا (مہمانوں کو بلانا)باجے بجانا یہ تمام باتیں نکاح کا سر عام اعلان بنتی ہیں
۔دھماکہ کر نا شیطانی عمل ہے ۔
نکاح کے وقت ساز
بجانے کا جواز
سعودی عرب کا علاقائی ساز دف ہے اور وہ
خوشی کے موقع پر دف بجاتے تھے جن علاقوں کا علاقائی ساز ڈھول یا ڈھولکی ہووہ ڈھول
یا ڈھولکی وغیرہ بجا سکتے ہیں اور جن علاقوں کا علاقائی سازطمبورہ ہو وہ طمبورہ
بجا سکتے ہیں ۔ضروری نہیں کہ آدمی لکیر کا فقیر ہو ۔
شادی کے لیے دُعا
جس کسی کی شادی نکاح نہ ہوتا ہو وہ اللہ
تعالیٰ سے قرآن پاک کی اس آیت کے حوالے سے دُعا مانگے
” اور وہ ہے جس نے
پیدا کیا پانی سے آدمی پس کیا واسطے اس کے ناتا اور سسرال اور ہے پرودگا ر تیرا
قادر “ (سورة الفرقان 25 : 54 )
مہر
مردکا عورت کو مہر دینا یا مہر دینے کا
وعدہ دینا (مہر معجل وغیرہ ) لازم ہے اگر نکاح کے موقع پر عورت نے مہر نہیں مانگا
پھر بھی مرد مہر ضرور دے ۔مہر کی رقم یا جائیداد مردکو اتنی مقرر کرنی چاہیے کہ وہ
آسانی سے دے سکے۔ اگر کوئی شخص مہر دینے کے وعدے پر نکاح کر لے اور مہر کہ رقم نہ
دے اُسے زنا کرنے کاگناہ ہوگا اور عورت کا کوئی گنا ہ نہیں ہوگااگر عورت کو مہر نہ
دیا گیا اور عورت فوت ہو گئی اور اُس کے بدن سے کوئی اولاد بھی نہیں تو مہر کی رقم
یا جائیداد عورت کے وارثوں (ماں ،باپ ،بھائی) کا حق بن جاتا ہے اور وہ عدالت کے
ذریعے وصول کر سکتے ہیں۔
” اور دو عورتوں کو
مہر اُن کے خوشی سے پس اگر خوشی سے دیں واسطے تمہارے کچھ چیز سے اس میں سے جی سے
پس کھاؤاُس کو سہتا پچتا “ (سورة النساء 4 : 4 )
اگر نکاح کے وقت مہر بہت زیادہ مقرر کر لیا
ہے تو بعد میں عورت کچھ واپس کر نا چاہے تو کر سکتی ہے اگر مرد نے مہر نہ دیا تو
اُس کو حکم ہے خوشی سے ادا کر ے۔
”۔۔۔نہیں مقرر کیا واسطے اُن کے مقرر کرنا “
(سورة البقرة 2 : 236 )
”پس جو مال کہ
فائدہ اُٹھایا ہے تم نے بدلے اسکے ان میں سے (یعنی بچے حاصل کرنے کیلئے عورت کے
بدن سے)پس دو ان کوجو مقرر کیا ہے واسطے اُنکے (حق مہر )موافق مقرر کے اور نہیں
گناہ اوپر تمہارے بیچ ا(مہر )اس چیز کے رضامند ہو تم ساتھ اس کے پیچھے مقرر کرنے
کے (مہر کم یا زیادہ کر لو )تحقیق اللہ ہے جاننے والا حکمت والا“۔(سورة النساء 4 : 24 )
کسی بھی مرد کو عورت کی صرف خوبصورتی کی
وجہ سے بہت زیادہ مہر نہیں دینا چاہیے کیونکہ اصل خوبصورتی حُسنِ سیرت و کردار اور
اخلاق ہوتی ہے ۔ بائبل میں فرمایا گیا
”امثال:
11:22۔بے تمیز عورت میں خوبصورتی گویا سور کی ناک میں سونے کی نتھ ہے
“
اور فرمایا
”غزل
الغزلات:8:7۔اگر آدمی محبت کے بدلے اپنا سب کچھ دے ڈالے( حق مہر) تو وہ سراسر
حقارت کے لائق ٹھہرے گا “
جہیز
”پیدایش: 12:34۔میں
تمہارے کہنے کے مطابق جتنا مہر اور جہیز تم مجھ سے طلب کرو دو نگا لیکن لڑکی کو
مجھ سے بیا ہ دو “
یہ جو آجکل جہیز کا رواج بنا ہوا ہے کہ
لڑکی والے دیتے ہیں بلکہ مطالبہ کر دیا جاتا ہے ۔اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق
نہیں ہے ۔ جہیز ہمیشہ لڑکے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ فراہم کرے۔ مہر بھی اور جہیز
بھی ۔جب مہرمیں بہت کچھ دے سکتا ہے تو جہیز ( استعما ل کی چیزیں ) تو معمولی بات
ہے ۔ جو شخص جہیز فراہم کرنے / خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا اُس کو نکاح کرنے کا حق
ختم ہو جاتا ہے ۔
جہیز
کی رسم کی اصل ہندو مذہب میں تھی ،وہ یوں کہ ہندومذہب میں لڑکی کو وراثت میں حق
نہیں دیا جاتا تو وہ ہندو لوگ وراثت کے حق کے طور پر جہیز دے دیتے ہیں کہ جہیز کے
نام پر وراثت دے دی گئی ۔ یہی رواج آج تک بھی کچھ مسلمان اپنائے ہوئے ہیں کہ لڑکی
کے نکاح کے وقت جہیز دے دیتے ہیں لیکن وراثت میں لڑکی کا حق نہیں دیتے حالانکہ دین
اسلام میں جہیز نہیں بلکہ وراثت میں حصہ دینا ضروری ہے ۔
ایک وقت میں
بیویوں کی حد
سوال : ایک وقت میں ایک مرد کتنی بیویاں
(عورتیں ) رکھ سکتا ہے ؟
جواب : قرآن پاک کی سورة النساءکی آیت
نمبر3میں فرمایا گیا
”دودو اورتین تین
اورچار چار“ (سورة النساء 4 : 3 )
اللہ تعالیٰ کا یہ اندازِ بیان ( جیسے کہ
دریا بہہ رہا ہے ) بتلا رہا ہے کہ مرد کیلئے عورتوں سے نکاح کرنے کی کوئی حد نہیں
خواہ کتنے ہی نکاح کر لے ۔ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھی
ایک وقت میں نو یا گیارہ نکاح تھے اور یہ کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے ایک وقت میں
سو نکاح تھے اور یہ کہ لونڈیاں رکھنے کی بھی کوئی حد نہیں ہے خواہ کتنی ہی خرید کر
جمع کر لے لیکن یہاں ایک بات بتلانا نہایت ہی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورة
النساءکی اس آیت نمبر3 میں فرمایا کہ
”پس ایک
ہے “ (سورة النساء 4 : 3 )
تو پس اللہ تعالیٰ کا مشورہ مانتے ہوئے
انسان مر د کو ایک وقت میں صرف ایک عورت سے نکاح کرنا چاہیے اور یہ کہ ایک سے
زیادہ بیویوں میں کوئی بھی عدل نہیں رکھ سکے گا کہ قرآن پاک میں فرمایا
”اور ہر گزنہ کر
سکو گے تم یہ کہ عدل کرو درمیان عورتوں کے “(سورة النساء 4 : 29 )
سوال: نکاح کے بارے میں آپ نے لکھا ہے کہ
دو دو تین تین چار چار سے مراد یہ بنتا ہے کہ جیسے دریا بہہ رہا ہے چاہے جتنے نکاح
کر لو ۔ کچھ حنفی علما ءکا فتویٰ کہ چار سے زائد حرام ہو گئے ۔دونوں فتوے گمان
لگتے ہیں ۔ مسئلے کا ٹھوس حل نظر نہیں آتے ۔
جواب: آپ آئیے سورة مائدہ کی آیت نمبر 5کی
طرف کہ فرمایا گیا
” آج کے دن حلال کی
گئیں واسطے تمہارے پاکیزہ چیزیں اور کھانا اُن لوگوں کاکہ دئیے گئے ہیں کتاب حلال
ہے واسطے تمہارے اور کھانا تمہارا حلال ہے واسطے انکے اور پاکدامنیں مسلمانوں میں
اور پاکدامنیں ان لوگوں میں سے کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے جب دو تم اُن
کومہر اُن کے نکاح میں لانے والے ۔۔۔“( سورة المائدہ 5 : 5 )
اس آیت مبارکہ میں مخاطب مسلمان ہیں کیونکہ
فرمایا گیا کہ” کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے“۔ اب اگر کوئی ورغلانے والا یوں
کہے کہ اس آیت کی رو سے اہل کتاب کا کھانا ایک دوسرے پر حلال کیا گیا ہے کہ فرمایا
” کھانا اُن لوگوں
کاکہ دئیے گئے ہیں کتاب حلال ہے واسطے تمہارے اور کھانا تمہارا حلال ہے واسطے
انکے“ اور یہ کہ مخاطب تمام اہل کتاب ہیں لہٰذا اہل کتاب آپس میں نکاح کر سکتے ہیں
یعنی اہل کتاب مسلمانوں کی عورتوں سے اور مسلمان اہل کتاب کی عورتوں سے تو سمجھ
دار عالم فوراًجواب دے گا کہ مسلمانوں کو اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کی اجازت دی
گئی ہے کہ فرمایا ” کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے“ یعنی مخاطب صرف مسلمان ہیں ۔
اگر اہل کتاب کو مسلمان عورت سے نکاح کی اجازت اللہ تعالیٰ دیتا تو جیسے کھانے کے
بارے میں وضاحت فرمائی ہے کہ فرمایا ” کھانا اُن لوگوں کاکہ دئیے گئے ہیں کتاب
حلال ہے واسطے تمہارے اور کھانا تمہارا حلال ہے واسطے انکے“ کیونکہ نکاح کے معاملے
میں مخاطب صرف مسلمان ہیں اس لیے مسلمانوں کو اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت ہے
لیکن اہل کتاب مسلمانوں کی عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے کیونکہ اُس بارے میں اللہ
تعالیٰ نے وضاحت نہیں کی۔ اسی طرح میں(یہ بندہ) کہہ سکتا ہوں کہ ایک وقت میں چار
سے زائد زندہ عورتیں نکاح میں رکھی جا سکتی ہیں کہ چار سے زائد نہ رکھنے کے بارے
میں منع نہیں کیا گیا ۔
”سب تعریف واسطے
اللہ کے ہے پیدا کرنیوالا آسمانوں کا اور زمین کا کرنے والا فرشتوں کا پیغام لانے
والے پروں والے دودو اور تین تین اور چار چار زیادہ کرتا ہے بیچ پیدائش کے جس کو
چاہتا ہے تحقیق اللہ اُوپر ہر چیز کے قادر ہے۔“ (سورة فاطر 35 : 1 )
فرشتے دو دو تین تین چار چار پر والے
حالانکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے متعلق مشہور ہے کہ انکے چھ صد پر ہیں(صحیح
بخاری ، جلد چہارم، کتاب تخلیق، نمبر 455، حدیث نمبر 3232)
متعہ (عارضی نکاح)
سوال: متعہ(مفہوم عارضی نکاح ) کی کیا
حیثیت ہے ؟
جواب : قرآن پاک کی آیات سورة النساء 4 :
24) اورسورة المائدة 5 : 5) میں الفاظ“مُحْصِنِينَ
غَيْرَ مُسَافِحِينَ ”آیا کہ جن کا ترجمہ ”عقد میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے
والے بد کار “”نکاح میں لانے والے نہ بد کاری کرنے والے “عارضی نکاح بد کاری ہے
کیونکہ اگر کوئی چند دن کیلئے نکاح کرے تو وہ صرف پانی نکالنے والے بد کار میں آئے
گا۔
چندمسائل اوراُن
کے جوا بات
سوال: اہلِ کتاب سے نکاح کے بارے میں آپ کا
کیا خیال ہے ؟
جواب : قرآن پاک کی سورة النساءکی آیت نمبر
5 میں اہلِ کتاب سے نکاح کرنے کی اجازت ہے لیکن قرآن پاک میں مشرک سے نکاح کرنا
حرام ہے
” اور مت نکاح کرو
شرک کرنے والیوں کو یہاں تلک کہ ایمان لاؤیں اور البتہ لونڈی ایمان والی بہتر ہے
شرک کرنے والی سے اور اگرچہ خوش لگے تم کو اور مت نکاح کرو شرک کرنے والوں کو یہاں
تلک کہ ایمان لاؤیں اور البتہ غلام ایمان والا بہتر ہے شرک کرنے والے سے اور اگرچہ
خوش لگے تم کو یہ لوگ بلاتے ہیں طرف آگ کے اور اللہ بلاتا ہے طرف بہشت کے اور بخشش
کے ساتھ حکم اپنے کے اور بیان کرتا ہے اللہ نشانیاں اپنی واسطے لوگوں کے تو کہ وہ
نصیحت پکڑیں“ (سورة البقرہ 2 : 221 )
اس لئے
یہود میں سے وہ جو حضرت عزیر علیہ السلام اور نصاریٰ میں سے وہ جو حضرت عیسیٰ علیہ
السلام کو اللہ کا بیٹا نہ کہتے ہوں ان اہلِ کتاب سے نکاح جائز ہے ۔
اگر آپ کو آسانی سے مسلمان عورت مل جائے تو
مسلمان سے نکاح کر لو کیونکہ وہ سب سے اچھی بات ہے اس کے بعد نصاریٰ (عیسائیوں )
میں نکاح کر نے کا حق بنتا ہے اور آخر میں یہود سے کیونکہ قرآن پاک کی آیت سورة
المائدہ 5 : 82 ) میں اللہ تعالیٰ نے کہا
کہ ایمان والے مسلمانوں سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہود اور مشرک لوگ ہیں اور
مسلمانوں سے دوستی کر نے والے نصاریٰ (عیسائیوں) میں ملیں گے ۔لہٰذا اگر اہلِ کتاب
میں سے ہی نکاح کرنا چاہتے ہو تو عیسائیوں سے کرنا ۔
”البتہ
پاوے گا تو زیادہ سب لوگو ں سے عداوت میں واسطے ان لوگوں کے کہ ایمان لائے ہیں
یہود کو اور اُن لوگوں کو کہ شریک کرتے ہیں اورالبتہ پاوے گا تو نزدیک ان کا دوستی
میں واسطے ان لوگوں کے کہ ایمان لائے ہیں ان لوگوں کو کہ کہتے ہیں تحقیق ہم نصاریٰ
ہیں یہ اس واسطے ہے کہ بعضے ان میں سے پڑھے ہیں اور عبادت کرنے والے ہیں اوریہ کہ
و ہ نہیں تکبر کرتے“۔ (سورة المائدہ 5
: 82 )
سوال: بچپن کے نکا ح کی کیاحیثیت ہے ؟
جو اب : قر آن پاک کی سو رة النسا ءکی آیت
نمبر6 کا تر جمہ
”اور آزما
یا کرو یتیمو ں کو یہا ں تک کہ جب پہنچیں نکا ح کو“ (سورة النساء 4 : 6 )
با لغ
ہو نے کے بعد نکا ح کیلئے آزما نا ضروری لا زم ہے ۔بچپن میں بچے کو آزمایا ہی نہیں
جا سکتالہٰذا بچپن کا نکاح با طل ہو ا ۔ رخصتی سے پہلے اگر لڑکی اس نکاح کا انکار
کر دے تو وُہ نکاح ویسے ہی باطل ہے لیکن اگر بچپن کے نکاح پر بالغ ہونے کے بعد
رخصتی ہو چکی ہو تو وہ اصل پکا نکا ح شما ر ہو گا ۔وہ اس لئے لڑکی نے نکاح ہو نا
قبول کیا اوراپنی رخصتی ہو نے دی ۔
سوال: لڑکی لڑکے کا نکا ح کے لئے والدین کی
مر ضی کے خلا ف گھر سے بھا گ جا نا ؟
جواب: بھا گ جا نا نکا ح میں شما ر ہو گا
بشر طیکہ ان کا آپس میں نکا ح جا ئز ہو مطلب یہ کہ لڑکی پہلے سے کسی کے نکا ح میں
نہ ہو ۔
سوال : جو لو گ اپنی بیٹی کے نکا ح سے پہلے
رقم وصو ل کر لیتے ہیں حق مہر کے علا وہ اس با رے میں آپ کا کیا خیا ل ہے ؟
جو اب : نکا ح سے پہلے لڑکی کا با پ رقم حا
صل کر تا ہے تو اس رقم میں اس نے اپنی لڑکی کو فر و خت کر دیا ۔ یعنی جس مرد سے
وُہ رقم حاصل کی اس کی غلا می میں با ندی لو نڈی کے طو ر پر اپنی لڑکی کو دے دیا
۔رقم دینے والا اس لڑکی کو بغیر نکاح کے بھی اپنے پا س رکھ سکتا ہے ۔لیکن اس لڑکی
کے بدن سے جو اولا د ہو گی وہ اس کی جائیداد میں وارث نہ بن سکے گی ۔ بلکہ اس کے
وارثوں میں غلا م کے طور پر تقسیم ہو گی ۔لیکن جو مر د لڑکی کے باپ کو بھی رقم
دیتا ہے اور اس نے لڑکی کو مہر دے کر نکا ح بھی کر لیا تو اس کو ایک غلا م خرید کر
آزاد کر نے اور پھر اس سے نکاح کر نے کا ثوا ب ہو گا ۔ایسے شخص کو غلام آز اد کر
نے اور پھر نکا ح کا تصور ہی ذہن میں رکھنا ا چھا ہے ۔
سوال : اللہ تعالیٰ کی تا ئید کے نکا حوں
کے بارے میں کہ کس طر ح کے ہو تے ہیں؟
جو اب : اللہ تعالیٰ کی تا ئید اور مر ضی
کے مطا بق جو نکا ح ہو تے ہیں ان کی تفصیل سو رة النور میں بیان کی گئی ہے ۔
” زنا کر نے والا
نہیں نکا ح کر تا مگر زنا کر نے والی کو یا بت پر ست کو اور زنا کر نے والی نہیں
نکا ح کرتا اس کو مگر زنا کر نے والا یا بت پرست۔۔۔“(سورة النور 24 : 3 )
یہ کہ اس بندہ (راقم) کا خا ص مشاہدہ ہے کہ
اس بندے نے ایسے نکا ح ہو تے دیکھے اورسنے کہ نکاح کر نے والے نے کہا کہ میں بھلا
فلا ں عورت سے نکاح کر سکتا ہوں؟ نہیں یہ کہ میں شہر چھوڑ کر بھا گ جاؤں گا لیکن
نکا ح نہ کر وںگا وغیر ہ وغیرہ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی پیشانی پکڑکر ملا دی اور
ان کا نکا ح ہو ا اور آپ نے سنا ہو گا کہ فلاں نواب یا خاندانی دولت مند نے طوائف
سے نکا ح کر لیا اور اپنی بد نا می کی بھی پر واہ نہ کی ۔یہ اصل میں اللہ تعالیٰ
کا حکم ہو تا ہے جو ہر حال میں پو را ہو تا ہے ۔اگر کو ئی شخص نیک ہو اور اس کا
نکا ح بھی نیک عورت سے ہو چکا ہو تا ہے لیکن پہلے نکا ح کے بعد وہ شخص زا نی بن جا
ئے تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ضرور پو را ہو تا ہے کہ وہ شخص دو سر ا نکا ح
ضرور کسی نہ کسی زانی عورت سے کر لیتا ہے اسی طر ح عو رت کہ اس کو طلا ق ہوکر پھر
وہ کسی زانی سے نکا ح پر مجبور ہو گی اور بھا رت کی خبروں میں آپ نے پڑھا ہو گا کہ
ہندوؤں اور مسلمانوں کے آپس میں نکا ح ہو جاتے ہیں ۔یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے
ہو تا ہے اور سو رة النو ر کی پہلی آیت میں ان احکا م اصول کے لا گو ہو نے کو اللہ
تعالیٰ نے لا زمی امر قرا ر دیا ہے اور فر مایا کہ ان احکا م پر عمل ہونے کے مشا ہدے
کی نشا نیاں اور نصیحت پکڑو۔
”یہ سو رت ہے کہ
اتا راہے ہم نے اسکو اور لا زم کیا ہم نے اُسکو اور اتا ریں ہم نے بیچ اس کے
نشانیاں بیا ن کر نے والیا ں تو کہ تم نصیحت پکڑو “ (سورة النور 24 : 1 )
اس کے علا وہ فر مایا آیت نمبر 26میں
”خبیث
عو رتیں وا سطے خبیث مر دوں کے ہیں اور خبیث مر د واسطے خبیث عو رتوں کے ہیںاور
پاک عورتیں واسطے پاک مر دوں کے ہیں اور پاک مر د واسطے پا ک عورتوں کے ہیں“ (
سورة النور 24 : 26)
اس لئے بز رگوں اور علما ءنے کہا ہے کہ نکا
ح کے فیصلے آسما نو ں پر ہو تے ہیں ۔بچپن میں جب یہ بندہ اخبا ر وغیر ہ میں پڑھتا
کہ ایک میا ں بیو ی نے کسی شخص سے رقم حاصل کرنے میں فرا ڈ وغیر ہ کیا اور بھا گ
گئے تو یہ بندہ دل میں سو چتا کہ اگر میاں نے بے ایما نی اور فراڈ کر نا چا ہا تھا
تواس کی بیوی نے اُسے کیوں نہ روکا کہ اللہ کو جان دینی ہے اور ظلم نہ کرو اور حق
پر رہو۔ اسی طر ح اگر بیوی فراڈ کر نا چا ہتی تھی تو خا وند نے کیوں نہ رو کا ایک
خلش سی دل میں باقی رہتی اب قرآن پاک کے مطا لعہ سے معلو م ہو ا کہ وہ میا ں بیو ی
دونو ں ایک ہی خصلت کے مالک ہو تے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے خبیث کا خبیث سے نکا
ح ہو جا تا ہے ۔
سوال : اگر کوئی عورت نکا ح کے بعد خاوند
(شو ہر )سے نا راض ہو کر اپنے میکے جا ئے اور شو ہر کے پاس نہ آئے اور نہ ہی طلا ق
کا مطا لبہ کر ے وغیرہ اور شو ہر بھی اُسے لینے کے لئے نہ جا ئے تو کیا کچھ سالوں
کے بعد خو د بخود طلا ق ہو جا ئے گی ؟
جواب: اس حالت میں ان کی سا ری زندگی طلا ق
نہ ہو گی بلکہ قر آن پاک کے مطا بق وہ لٹکی ہو ئی حیثیت میں رہیں گے ۔
”پس چھو ڑ دو ان کو
جیسے لٹکی ہو ئی اور صلح کر لو تم اور ڈرو پس تحقیق اللہ سے بخشنے والا مہر
بان٭اور اگر جُدے (جدا ) ہو جا ویں دونو بے پر واہ کر دے گا اللہ ہر ایک کو کشا یش
اپنی سے اورہے اللہ کشایش والا حکمت والا ہے ۔“(سورة النساء 4 : 129، 130 )
سوال : اگر کو ئی مر د نکا ح کر نے کے بعد
کسی اغوایا دما غی توا زن کی وجہ سے گم یا غا ئب ہو جا ئے اور یہ تصور کر تے ہو ئے
کہ وہ فو ت ہو گیا ہے اس کی بیو ی کا کسی دو سری جگہ نکاح ہو جا ئے لیکن کچھ عر صہ
کے بعد پہلا خا وند بھی آجا ئے تو وہ عو رت کس کی بیوی ہو گی ؟
جواب: وہ عو رت دوسرے خاوند کی بیوی رہے گی
کہ اس کے گم ہو نے کی صورت میں برادری کے بزرگوں کا فیصلہ کہ وہ فو ت ہو چکا وہ
نکا ح ٹو ٹ گیا یا برادری کے بزرگوں کا یہ فیصلہ کہ کئی سال گذر چکے ہیں وہ زندہ
بھی ہو گا تو واپس نہ آئے گا یو ں تصور بھی ہو گا کہ عو رت نے اس مر د کی غیر مو
جو دگی میں برادری کی عدالت میں تنسیخ کا دعویٰ کیا اور یک طر فہ فیصلہ عورت کے حق
میں ہو ا اور پہلا نکا ح ٹو ٹ گیا۔ ایسی حالت میں عو رت کا کسی دوسر ے مر د سے نکا
ح کر لینا پہلے خا وند سے طلا ق تصور ہو گا ۔کیو نکہ طلا ق کا جو از اس پہلے خا
وند نے مہیا کر دیا وہ غا ئب ہو گیا دا نستہ یا غیر دانستہ ۔
سوال : کیا ولی کی اجا ز ت کے بغیر نکا ح
جا ئز ہے ؟ وضا حت کر یں۔
جو اب :
1۔
تفسیر ابن کثیر میں ایک وا قعہ ملتا ہے کہ ایک لڑکا لڑکی نے ماں با پ کی مر ضی کے
خلا ف نکا ح کر لیا ۔لڑکی کے با پ نے اما م حنیفہ کے فتوے کے مطابق دعوےٰ کیا کہ
ولی کی اجازت کے بغیر نکا ح جا ئز نہیں لہٰذانکا ح با طل قر ار دیا جا ئے ۔لڑکی کو
عدالت میں طلب کر لیا گیا تو لڑکی نے عدالت میں کہا کہ میں نے اما م مالک کے فتویٰ
کے مطابق کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکا ح ہو سکتا ہے ۔میں نے اپنا نکا ح کر لیا
۔لڑکی کا با پ عدالت سے یہ کہتا ہواواپس چلا گیا کہ میر ی لڑکی اما م مالک کی پیرو
کا ر ہو گئی ہے لہٰذاآج کے بعد میر ا میری بیٹی سے کوئی تعلق نہیں ۔عدالت نے نکا ح
بر قرا ر رکھا ۔عدالت کا فیصلہ ہمیشہ کا قانون بن جا تا ہے ۔
2۔
ایک حدیث ہے کہ جو لڑکا لڑکی مذاق میں اپنا نکا ح کر لیں گے وہ ان کا پکا نکا ح ہو
جا ئے گا ۔
تو جہ: جب لڑکا لڑکی مذاق میں نکا ح کر رہے
ہو تے ہیں کیا اُس وقت انہوں نے ولی سے اجازت لی ہو ئی ہوتی ہے ؟ نہیں ۔اس حدیث سے
یہ ثا بت ہو جا تا ہے کہ ولی کی اجا زت کے بغیر بھی نکا ح ہو جاتا ہے ۔
ولی کی اجا زت کے بغیر کا نکا ح مکر و ہ
نکا ح ہو گا جیسے طلا ق کا ہو نا مکروہ عمل ہے ۔ہاں مگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح
کر نے والے ولی (ماں باپ )کی نافر مانی کے گنا ہ گا ر ہو چکے ہو تے ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment