Virasat key Chand Pehlu
By: Muhammad Akbar
PDF Link To Download File
وراثت کے چند پہلو
تحریر و تحقیق:
محمد اکبر، اللہ والے
، مظفرگڑھ
سورة النساءمیں وراثت کی تفصیل لکھی ہے لیکن یہ بندہ صرف
وراثت کے چند پہلوؤں پر لکھنا چاہتا ہے کہ دادا فوت ہونے پرا س کے یتیم پوتے (جو کہ
دادے کی زندگی میں یتیم ہو چکاہو)کو دادا کی وراثت میں سے حق ملے گا یا نہیں ؟ جبکہ
یتیم بچوں کے چاچے زندہ ہیں۔
1۔ اس بارے میں علماءکا فتوی یہ ملتا ہے کہ چاچوں کے ہوتے ہوئے یتیم
بچوں (پوتوں) کو کوئی حق وراثت نہیں ملے گا کیونکہ قریبی کا حق پہلے ہے اور یتیم پوتے
بعیدی ہیں اس لیے ان کا وراثت میں کوئی حق نہیں۔
2۔ حکومت پاکستان نے اس بارے میں بمطابق فیصلہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دیا
ہے کہ ایسے یتیم یا با لغ کہ جن (کا باپ فوت) ہو چکا ہو چاچے زندہ ہوں اُن کے دادا
فوت ہونے کی صورت میں ان یتیم بچوں کو بھی دادا کی فوتگی پر وراثت میں حق ملے گا اس
طرح کہ ان کا باپ زندہ تصور ہو کر اس کو اپنے بھائیوں کے برابر حصہ ملے پھر فوت شدہ
تصور ہو کر وہی حصہ اس کی اولاد کو ملے یعنی یتیم بچوں کو یا دادے کے پوتوں کو۔
عام طور پر سننے میں آیا ہے کہ علماءکرام کا فتویٰ شریعت
دین اسلام کے عین مطابق ہے اور حکومت پاکستان کا فیصلہ شریعت دین اسلام کے خلاف ہے۔اس
بندہ نے اس بارے میں خوب غور وفکر کیا ہے کہ جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت پاکستان
کی سپریم کورٹ کا فیصلہ شریعت دین اسلام کے عین مطابق ہے اور علماءکا فتویٰ شریعت دین
کے خلاف جس کے ثبوت میں بندہ دلائل سے بات کرتا ہے۔
دین اسلام میں کسی چیز کے بارے یا کسی بات کی بابت فیصلہ
یا فتویٰ دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طبیعت اور صفات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ یا
فتویٰ دیا جائے گا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو فتویٰ یا فیصلہ ہم دے رہے ہیں اس سے
اللہ تعالیٰ الٹا ہم سے ناراض ہو جائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طبیعت اور صفات کے خلاف
فتویٰ یا فیصلہ دے دیں۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی طبیعت اور صفات کی دو باتیں تو
ضرورذہن میں رکھی جائیں گی۔
1۔ ”اور یہ کہ اللہ نہیں ظلم کرنے والا واسطے بندوں کے“(سورة آل عمران
3 : 182) (سورة الانفال 8 : 51 )
2۔ ” مطلب ہمارا فرما برداری ہے معقول“(سورة النور 24 : 53 )
3۔ ”اور حکم کریں ساتھ اچھی چیز کے (معقول) اور منع کریں نا معقول سے(سورة
آل عمران 3 : 104 )
اللہ تعالیٰ کی دو صفات کھل کر سامنے آئیں۔
1۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے پر ظلم نہیں کرتا۔
2۔ اللہ تعالیٰ نامعقول بات پسند نہیں کرتا۔
شریعت دین اسلام اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے۔ اس لیے شریعت
دین اسلام میں کہیں بھی کوئی ایسا حکم نہیں ہے کہ کسی انسان کے ساتھ ظلم کیا جائے یا
نا معقول بات کہی جائے۔
تو سب سے پہلے یہ بندہ اپنے دلائل پیش کرتا ہے۔
دلیل نمبر1
یہ دیکھا جائے تو علماءکا
فتویٰ سرا سر ظلم ہے کہ ایک تو اُن بچوں کا والد فوت ہو گیا اور پھر فتوی کہ دادے کی
وراثت میں سے حق نہ دیا جائے۔یہ یتیموں پر ظلم کرنے والی بات ہے۔ یہ کہ ایساہونا اللہ
تعالیٰ کو پسند نہیں ہو سکتا۔لہٰذا علماءکا فتوی غلط ہے اور حکومت پاکستان کی سپریم
کورٹ کا فیصلہ عین دین اسلام کے مطابق ہے۔
دلیل نمبر2
اس طرح حکومت پاکستان کے فیصلے
اور علماءکے فتوی پر خوب غور کرو کہ فیصلہ نا معقول ہے یا فتوی تو صاف ظاہر ہے کہ یہ
فتوی نامعقول ہے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ صاف اور ظاہری طور پر جائز اور معقول بات
ہے۔ اللہ تعالیٰ معقول بات کی اجازت دیتا ہے نامعقول کی نہیں۔
دلیل نمبر3
یہ دلیل قرآن پاک کی رو سے ہے اوریہ دلیل حجت اتما م ہے
کہ سورة یوسف 12 : 6 میں دادے اور پڑدادے کو باپ کہا ہے کہ فرمایا
”
اوپر دو باپ تیرے کے پہلے اس سے ابراہیم اور اسحاق“( سورة
یوسف 12 : 6 )
حالانکہ عربی میں دادے کو جد وغیرہ کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ
نے سورة یوسف میں یہ صرف اسی لیے لکھا کہ کل کو لوگ دادے پڑدادے کو باپ کی حیثیت سے
خارج نہ کر دیں۔ دادا تو کیا پڑدادے اور پڑ پوتے میں بھی یہی معاملہ ہو تو وراثت پہنچے
گی۔ اکثر انسان اپنی چار چار پیڑھی دیکھ لیتا ہے۔ وراثت اسی ترتیب سے ملے گی کہ درمیان
والا فوت شدہ زندہ تصور ہو گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس بارے میں مناظرہ کرنے
کو تیار تھے کہ دادے پڑدادے باپ ہوتے ہیں۔
دلیل نمبر4
یہ کہ دادا کا ایک یتیم پوتا
( لڑکا) زندہ ہو تو وہ دادا کلالہ (جس کا بیٹا نہ ہو وغیرہ)نہیں کہلا سکتا۔ تو پھر
بھلا اس پوتے کو وراثت کے حق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔
دلیل نمبر5
دادی کے فوت ہونے پر اگر دادی
کے یتیم پوتے زند ہ ہوں تو خاوند دادے کو چوتھائی ملا نہ کہ آدھا۔ (ابن کثیر)۔ لہٰذا
ثابت ہوا کہ یتیم پوتے کا رشتہ دادے سے خاص قریبی رشتہ ہے۔
دلیل نمبر6
اے اللہ کے نیک بندو ! اللہ
تعالیٰ کی ذات تو وہ الرحمن والرحیم ذات ہے کہ جس نے وراثت میں دوسرے یتیم مسکین فقراءکا
بھی حق رکھ دیا ہے۔
”
اور جب حاضر ہوںبانٹنے میں قرابت والے اور یتیم اور فقراءپس
کچھ دو انکو اس میں سے اور کہو ان کو بات اچھی“(سورة النساء 4 : 8 )
تو پھر بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی دادے
کے ایسے حقیقی پوتے کہ جن کا باپ فوت ہو گیا ہو۔ وہ بالغ ہوں یا یتیم وراثت کے حق سے
محروم کر دے۔
دلیل نمبر7
اے اللہ کے بندو! دیکھلاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں
کہاں لکھا ہے کہ میں دادے کے ایسے پوتوں کو کہ جن کا باپ مر گیا ہووراثت کے حق سے محروم
کرتا ہوں۔ عقل کرو اے اللہ والو۔
دلیل نمبر8
نرینہ اولاد کا ہونا باپ کا
نام زندہ رکھنے والا کہلاتا ہے۔ نرینہ اولاد نہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ فلاں کا نام ختم
ہو گیا۔جس کا نام زندہ ہے وہ زندہ شمار ہو گا اور اپنا حق پائے گا پھر پوتے کو ملے
گا۔ جیسے شہید کو مردہ مت کہو کہ وہ رزق پاتے ہیں اسی طرح جس کا نسب زندہ ہے وہ زندہ
کہلائے گااور اپنا حق پائے گا۔یہ نام زندہ کہلانا صرف وراثت کا حق حاصل کرنے کے لیے
کہلانا ہے۔
یاد رہے کہ کسی بھی شخص کو اپنی جائیداد کا 1 بٹا 3 حصہ
تک وصیت کرنے کا اختیار ہے۔ خواہ غیروں کو دے خواہ اپنے غریب رشتہ داروں کو خواہ اپنی
اولاد میں سے معذوریا غریب یا خدمت کے صلہ میں۔ صرف1بٹا3 حصہ۔
یہ کہ اگر کسی نے زندہ لاش دیکھنی ہوں تو ایسے شخص کو دیکھ
لے کہ جس نے اپنی زندگی میں جائیدد کا ورثہ اپنی اولاد کے نام کر دیا ہو۔ زندہ تو اس
لیے وہ زندہ ہے اور لاش(مردہ)اس لیے کہ مرنے کے بعد وراثت تقسیم ہوتی ہے جوہو چکی۔
کلالہ جس کی جائیداد جن لوگوں میں ورثہ کے طور پر تقسیم
ہو نی ہے وہ تمام ایسے ہیں جیسے کلالہ کے بیٹے بیٹی۔ ان لوگوں پر کلالہ کی خدمت کرنا
فرض بن جاتا ہے جییے بیٹابیٹی پر کیونکہ اس کی جائیداد کے وارث جو ٹھہرے۔
وصیت میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔کہ فرمایا
”پس
جو کوئی ڈرے وصیت کرنے والے سے کجی کو یا گناہ کو پس اصلاح کر دے درمیان ان کے پس نہیں
گناہ اوپر اس کے تحقیق اللہ بخشنے والا مہربان ہے“(سورة البقرہ 2 : 182 )
ایک صحابی نے اپنے غلام کے لیے وصیت میں آزاد اور 100 اونٹ
کہہ دئیے۔ بعد میں بیٹوں نے اعتراض کیا معاملہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
کے پاس آیا آپ نے فرمایا زیادہ اونٹ کہے اور فرمایا 20 دے د و30 دے د و35 دے دو فرمایا40
اورپس اس کے بعد فرمان جاری ہوا کہ1بٹا3سے زیادہ کی وصیت نہ کی جائے۔ باقی تما م وارثوں
میں تقسیم ہوا اورایک تہائی بھی بہت زیاد ہ ہے۔ کم کی وصیت کیا کریں۔ اس فرمان کی رو
سے اگر کوئی کلالہ یہ وصیت کر دے کہ میرے مرنے کے بعد میرا سارا ور ثہ مسجد کا وغیرہ
تو یہ غلط وصیت ہو گی۔ 1تہائی مسجد کا اور 2 تہائی وارثوں کا۔ زندہ منصف یا جج اس وصیت
میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔
ایک اور معاملہ یہ کہ اگر کسی باپ نے اپنی زندگی میں کسی
لڑکے کے مطالبے پر اس کو اپنی جائیداد سے رقم سے یا زمین کی صورت میں کافی کچھ دے دیا
ہو لیکن با پ کی وفات کے پردہ پھر وراثت میں برابر کا حصہ مانگتا ہے تو وہ غلطی پر
ہے کہ وہ باپ کی زندگی میں اپنی وراثت میں سے مکمل یا نا مکمل حصہ وصول پا چکا ہے۔
انجیل مقدس میں واقعہ لکھا گیا ہے۔
”لوقا:
باب 15:11۔پھر اس نے کہا کہ کسی شخص کے دو بیٹے تھے۔12۔ ان میں سے چھوٹے نے باپ سے
کہا اے باپ! مال کا جو حصہ مجھ کو پہنچتا ہے مجھے دیدے۔ اس نے اپنا مال متاع انہیں
بانٹ دیا۔ 13۔ اور بہت دِن نہ گذرے کہ چھوٹا بیٹا اپنا سب کچھ جمع کر کے دور دراز ملک
کو روانہ ہوا اور وہاں اپنا مال بدچلنی میں اڑا دِیا۔ 14۔ اور جب سب کچھ خرچ کر چکا
تو اس ملک میں سخت کال پڑا اور وہ محتاج ہونے لگا۔ 15۔پھر اس ملک کے ایک باشندہ کے
ہاں جا پڑا۔ اس نے اس کو اپنے کھیتوں میں سور چرانے بھیجا۔ 16۔ اور اسے آرزو تھی کہ
جو پھلِیاں سور کھاتے تھے انہی سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اسے نہ دیتا تھا۔17۔ پھر
اس نے ہوش میں آ کر کہا میرے باپ کے بہت سے مزدوروں کو افراط سے روٹی ملتی ہے اور میں
یہاں بھوکا مر رہا ہوں! 18۔ میں اٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور اس سے کہوں گا
اے باپ! میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا۔19۔ اب اِس لائق نہیں رہا پھر تیرا
بیٹا کہلاؤں۔ مجھے اپنے مزدوروں جیسا کرلے۔ 20۔ پس وہ اٹھ کر اپنے باپ کے پاس چلا۔
وہ ابھی دور ہی تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے باپ کو ترس آیا اور دوڑ کر اس کو گلے لگایا
اور چوما۔ 21۔ بیٹے نے اس سے کہا اے باپ! میں آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا۔
اب اس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاؤں۔22۔ باپ نے اپنے نوکروں سے کہا اچھے سے
اچھا لباس جلد نکال کر اسے پہناؤ اور اس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں جوتی پہناؤ۔23۔
اور پلے ہوئے بچھڑے کو لا کر ذبح کرو تاکہ ہم کھا کر خوشی منائیں۔ 24۔ کیونکہ میرا
یہ بیٹا مردہ تھا۔ اب زِندہ ہوا۔ کھو گیا تھا۔ اب ملا ہے۔ پس وہ خوشی منانے لگے۔
25۔ لیکن اس کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا۔ جب وہ آ کر گھر کے نذدیک پہنچا تو گانے بجانے
اور ناچنے کی آواز سنی۔ 26۔ اور ایک نوکر کو بلا کر دریافت کرنے لگا یہ کیا ہو رہا
ہے؟ 27۔ اس نے اس سے کہا تیرا بھائی آ گیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا
ہے کیونکہ اسے بھلا چنگا پایا ہے۔ 28۔ وہ غصے ہوا اور اندر جانا نہ چاہا مگر اس کا
باپ باہر جا کر اسے منانے لگا۔ 29۔ اس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا دیکھ اِتنے برسوں
سے میں تیری خدمت کرتا ہوں اور کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی مگر مجھے تو نے کبھی ایک
بکری کا بچہ بھی نہ دِیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی مناتا۔ 30۔ لیکن جب تیرا یہ بیٹا
آیا جس نے تیرا مال متاع کسبیوں میں اڑا دِیا تو اس کے لیے تو نے پلا ہوا بچھڑا ذبح
کرایا۔ 31۔ اس نے اس سے کہا بیٹا! تو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا
ہی ہے۔ 32۔ لیکن خوشی منانا اور شادمان ہونا مناسب تھا کیونکہ تیرا یہ بھائی مردہ تھا۔
اب زندہ ہوا۔ کھویا ہوا تھا۔ اب ملا ہے۔“
اس واقعہ میں آیت نمبر31 میں کہ” جو کچھ میرا ہے وہ تیرا
ہی ہے“مطلب یہ کہ وراثت میں تیرے دوسرے بھائی کو کوئی حق نہ ہوگا اور یہ فقرہ ”میں
آسمان کا اور تیری نظر میں گنہگار ہوا“مطلب یہ ہے کہ باپ کی زندگی میں وراثت کا حق
مانگ کر لے چکنا گناہ ہوا۔ وراثت تقسیم کرنے میں اگر صرف دو بھائی ہوں تو وہ اپنی جائیداد
اس طرح بانٹ سکتے ہیں جیسے توریت پیدائش میں ذکر ہے کہ حضرت ابرہیم علیہ السلام نے
تقسیم کی اورحضرت لوط علیہ السلام نے مانگا۔
”پیدایش:باب
13:9۔کیا یہ سارا مُلک تیر ے سامنے نہیں؟ سو تُو مجھ سے الگ ہو جا۔ اگر تُو بائیں جائے
تو میں دہنے جاؤں گا اور اگر تُو دہنے جائے تو میں بائیں جاؤں گا۔۔۔11۔ سو لوط نے یردن
کی ساری ترائی کو اپنے لیے چُن لیا اور وہ مشرق کی طرف چلا اور وہ ایک دوسرے سے جدا
ہو گئے۔“
اسی طرح بڑا بھائی دو برابر
حصہ کر دے او ر چھوٹا بھائی جو اسے پسند آئے مانگ لے اس طرح کوئی جھگڑا نہ ہو گا اور
اگر بھائی زیادہ ہوں اور ضدی کہ ہر کوئی کہے میں فلاں حصہ لوں گا تو ان کا فیصلہ کرنے
کے لیے الہامی کتاب بائبل میں قرعہ ڈالنے کا طریقہ درج ہے کہ فرمایاگیا۔
”امثال
:باب 18:18۔قرعہ جھگڑوں کو موقوف کرتا ہے اور زبردستوں کے درمیان فیصلہ کردیتا ہے۔“
”حِزقی
ایل :باب45:1۔اور جب تم زمین کو قرعہ ڈال کر میراث کے لئے تقسیم کرو“
اور توجہ خاص کر فرمایا
”امثال
:باب 12:22۔نیک آدمی اپنے پوتوں کے لئے میراث چھوڑتا ہے“
اس تحریر سے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سبق دیا ہے کہ وہ
اپنی اولاد کے لئے میراث چھوڑ جائیں اور حاصل کرنے والوں کو سمجھانے کے لئے قرآن پاک
میں یوں فرمایا گیا اور یہ برے لوگوں کی صفت بیاںفرمائی گئی۔
”
اور کھاتے ہو تم میراث کو کھانا پے درپے“(سورة الفجر 89
: 19 )
اور دیکھنے میں بھی آیا ہے کہ بعض لوگ باپ کے فوت ہونے کے
بعد اپنی جائیداد فروخت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا انجام خراب ہوتا ہے۔
وصیت کی اہمیت
سورة النساءمیں وراثت کے حصے تفصیل سے لکھ دئیے گئے ہیں
لیکن اس سورة کی آیت 11میں وصیت کے بارے میں دو بار الفاظ آئے کہ
”پیچھے وصیت کے کہ وصیت
کر جاوے ساتھ اس کے یا قرض کے “(سورة النساء 4 : 11 )
قرآن پاک کے ان الفاظ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم
دیا کہ کہ جو تفصیل وراثت کے بارے میں لکھی گئی ہے کہ ایک مرد کا حصہ برابر دو عورتوں
کے وغیرہ وہ پیچھے وصیت کے ہے ۔ اگر مرنے والا (فوت ہونے والا ) فوت ہونے سے پہلے وصیت
کر گیا ہے تو پہلے وصیت پر عملدر آمد ہو گا ۔ پہلے فوت ہونے والے کی وراثت میں سے فوت
ہونے والے پر اگر کوئی قرض ہے تو وہ قرض ادا ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسان کو
جائیداد و مال و دولت کا وارث بنا یا ہے وہیں انسان کو یہ اختیار بھی دیا ہے کہ وہ
وصیت کے ذریعے سے جائیداد اپنے وارثوں میں تقسیم کر دے ۔وصیت کر جانا تمام لڑائی جھگڑے
مٹا ڈالتا ہے ۔ وراثت کے تقسیم میں وصیت پر عمل در آمد کا حق پہلے بنتا ہے اس کے متعلق
دو ثبوت پیش کرتا ہوں ۔
1۔ ایک صحابی نے اپنے غلام کے لیے وصیت میں آزاد کرنا اور 100 اونٹ کہہ
دئیے تو اُس صحابی کی وفات پر پہلے وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس غلام کی آزاد کرنے کے
ساتھ100 اونٹ دینے کا معاملہ پہلے آیا ۔
2۔ اگر کوئی شخص اپنے نافرمان بیٹے کو اپنی جائیداد سے عاق کر دیتاہے
تو اس شخص کے بیٹے کو اس کے باپ کی وفات کے بعد اُس کے باپ کی وراثت میں سے کوئی حصہ
نہیں دیا جاتا کیونکہ اس کا باپ وصیت کے ذریعے اسے عا ق کر گیا تھا۔ ثابت ہو اکہ وصیت
پر عمل در آمد کا حق پہلے ہے اور بعد میں اس تقسیم کی ترتیب کا کہ ایک مرد برابر دو
عورتوں کے ۔
کچھ لوگ اچانک فوت ہو جاتے ہیں اور کچھ بھی وصیت نہیں کر
پاتے تو ان کی وراثت اُس ترتیب سے تقسیم کی جائے گی کہ جو قرآن پاک میں سورة النساءمیں
لکھ دی گئی ہے ۔
وصیت کا اجرا وصیت کرنے والے کے فوت ہونے کے بعد کیا جائے
گا کہ الہامی کتاب انجیل مقدس میں فرمایا گیا
”عِبرانیوں:
باب9: 17۔ اس لئے کہ وصیت موت کے بعد ہی جاری ہوتی ہے اور جب تک وصیت کرنے والا زندہ
رہتا ہے اس کا اجرا نہیں ہوتا۔“
عام لوگوں کے لیے قرآن پاک سورة النساءمیں وصیت کرنے کے
بارے میں جو الفاظ ہیں وہ یوں کہ
”پیچھے وصیت کے کہ وصیت
کر جاوے ساتھ اس کے یا قرض کے “(سورة النساء 4 : 11 )
لیکن کلا لہ شخص کے بارے میں
خاص الفاظ کا اضافہ لکھا گیا
”
نہیں ضرر پہنچانے والا کسی کو “ (سورة النساء 4 : 12 )
کلالہ شخص کے وارثان میں کیونکہ دوسرے لو گ بھی شامل ہوتے
ہیں اس لیے کلالہ شخص کو خاص ہدایت کی گئی کہ وہ کسی وارث کو وصیت میں نقصان نہیں پہنچا
سکتا ۔ وصیت یوں کر سکتا ہے کوکہ فلاں جائیدا د فلاں کی اور فلاں جائیداد فلاں کی وغیرہ
کسی وارث کو جائیداد سے محروم رکھتے ہوئے وصیت نہیں کر سکتا اگر کلالہ شخص کسی وارث
کو محروم رکھتے ہوئے وصیت کرے گا تو قرآن کے مطابق
”پس جو کوئی ڈرے وصیت
کرنے والے سے کجی کو یا گناہ کو پس اصلاح کر دے درمیان ان کے پس نہیں گناہ اوپر اس
کے تحقیق اللہ بخشنے والا مہربان ہے“ (سورة البقرہ 2 : 182 )
وصیت کے ذریعے جب کوئی شخص اپنے نا فرمان بیٹے کو عاق کر
سکتاہے تو وصیت کے ذریعے اپنے کسی بہت زیا دہ خدمت کرنے والے بیٹے کو وراثت میں سے
کچھ زیادہ حصہ بھی دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی شخص کے پا س ایک لاکھ مالیت کی بندوق
( منقولہ جائیداد ) ہے اوروہ شخص وصیت کر دے کہ میرے فوت ہونے پر یہ بندوق میرے فلاں
بیٹے کی ہو گی تو اس کے فوت ہونے پر وہ بندوق اُسی بیٹے کو ملے گی جس کے بارے میں وصیت
میں کہا گیا تھااور دوسرے وراثت میں حق دار اُس بندوق کی قیمت کا حصہ نہ مانگ سکیں
گے۔ وصیت اور حصوں کی تقسیم کہ مرد برابر دو عورتوں کے وغیرہ کی حیثیت ایسے ہے جیسے
وضو کے بارے میں کہ پانی کے ہونے کی صورت میں تیمم کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح
وصیت ہونے کی صورت میں سورة النسا ءمیں تحریر حصوں کی حیثیت ختم ہو جا تی ہے ۔
سوال: وصیت کے بارے میں یوں ہے کہ وصیت فقروں غلاموں اور
غیروں لیے ہوتی ہے حقیقی وارثوں کے لیے نہیں ہوتی۔ آپ نے حقیقی وارثوں (بیٹوں ،بیٹیوں
) کے بارے میں بھی وصیت کرنے کا حق دے دیا ۔
جواب: عاق کرنا وصیت ہے کہ جس سے حقیقی وارث کو عاق کیا
جاسکتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حقیقی وارثوں کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے ۔ بائبل کی
کتاب پیدایش میں حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد کو وصیت
کے ذریعے زیادہ میراث ان الفاظ میں دیا۔
”پیدایش:باب
48:22۔اور میں تجھے تیرے بھائیوں سے زیادہ ایک حصہ جو میں نے اموریوں کے ہاتھ سے اپنی
تلوار اور کمان سے لیا دیتا ہوں “
No comments:
Post a Comment