Monday, August 11, 2014

طلاق




پی ڈی ایف فائل






طلاق
 (یونی کوڈ اُردو میں)

تحریروتحقیق: محمد اکبر اللہ والے، مظفرگڑھ

فہرستِ مضامین
طلاق
حر ف آغاز
بلا وجہ طلا ق کے بارے میں
طلا ق دینے سے پہلے کے مر احل
طلاق کی اقسام
طلاق کی اقسام کا تعارف
طلاق کی قِسموںکی حدوںکی تفصیل
عدت کی مدت
طلاق دینے کاطریقہ بمعہ بحث کے
طلاق میں دوججوں کے بارے میں دلائل
نکاح کی مضبوطی
بلاوجہ یاجھوٹے الزاما ت کے ذریعے نکاح توڑنے کی سزا کا اندازہ
نکاح کا فسخ کرانا(خلع )اور طلاق کا فسخ کرانا
حلالہ کے بارے میں بحث
حلالہ کارائج مفہوم
حلالہ حلال ہے یا حرام ہے؟
حلالہ کی حقیقت
چندمسائل اوراُن کے جوا بات

طلاق
حر ف آغاز
یہ بندہ جب بھی قر آن پاک پڑھتا تھاتو طلا ق کے بارے میں آیا ت پر پہنچ کر بہت ہی کرا ہت ہو تی تھی اور دل چا ہتا تھا کہ یہ آیات نہ ہی پڑھو ں تو اچھا ہے لیکن ان آیات کے پڑھے بغیر قر آن پا ک پڑھا جا تا تو قرآن پاک کا پڑھنا نا مکمل رہ جا تا، اس خیال کو مد نظر رکھتے ہو ئے یہ بندہ طلا ق کی آیات کو سر سری طور پر پڑھتا اور آگے گذر جا تا لیکن ذرائع ابلاغ اور عوام میں موجو د غلط فہمیوں اور گمر اہ کن معلو ما ت کو مدنظر رکھتے ہو ئے دل میں ایک تڑپ اٹھتی تھی کہ اللہ رب العزت اس بندہ حقیر پرتقصیر کو مذکورہ مسئلے کے بارے میں ٹھو س جامع اور مستند علم عطا فر ما دے کہ عوام اور خواص میں اس مسئلے کا بہتر شعور پیدا کیا جا سکے۔چنانچہ رب العزت نے دعا قبو ل فر ما ئی اور بندہ پر احسان کر تے ہو ئے خصوصی علمی رحمت فرمائی لہٰذا بندہ کی بظا ہر ادنیٰ مگر مو ضوع کے لحا ظ سے اعلیٰ کا وش مطالعہ اور اصلاح عام(اگر ہو سکے تو)کے لیے حاضر خدمت ہے ۔

بلا وجہ طلا ق کے بارے میں
دین اسلا م میں ایک ایسی حد ہے کہ جس حد تک بلا وجہ طلا ق دینا حلا ل ہے اور یہی حد ثا بت کر رہی ہے کہ اس حد کے گذر جا نے کے بعد طلا ق دینا گنا ہ ہے اور گنا ہ حرام ہو تا ہے لہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ بلا وجہ طلا ق حرا م ہے۔ بلا وجہ طلا ق دینے کا وقت اور حد یہ ہے کہ نکاح کے بعد بیوی کو ہاتھ مس نہ کیا ہو
نہیں گنا ہ اوپر تمہارے یہ کہ طلاق دو تم عو رتوں کو جب تک کہ نہ ہا تھ لگا یا ان کو “ (سورة البقرة  2 : 236)
اللہ تعالیٰ نہیں چا ہتا کہ نکاح کے بعد طلا ق کی نو بت پہنچے اس لئے ایک آسانی اور رکھ دی کہ نکا ح کے بعد بھی ہا تھ مس کر نے سے پہلے اپنی بیوی کی شکل و قد غور سے دیکھ لے اور با تیں وغیر ہ کر کے اس کی آواز و انداز دیکھ لے اور سو چ لے کہ سا ری زندگی اس عو رت کے سا تھ گذا رنی ہے اور نبھا نی ہے اگر ہا تھ مس نہیں کیا اور سو چنے کے بعد طلاق دے دیتا ہے تو اس مر د پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کو ئی گنا ہ نہیں۔ بلاوجہ طلاق کے حرام ہونے کے بارے میں دلائل:۔

 دلیل نمبر1
یہی آیت سورة البقرہ 2 : 236  اشا رہ دے رہی ہے کہ ہا تھ لگا نے کے بعد طلاق دے گا تو گناہ ہو گا اور گنا ہ حرام ہے لہٰذا ثا بت ہو ا کہ بلا وجہ طلا ق حرا م ہے ۔

دلیل نمبر2
مت حرام کر و پا کیزہ اس چیز کو کہ حلا ل کیا اللہ نے واسطے تمہا رے اور مت نکل جاؤ حد سے تحقیق اللہ نہیں دو ست رکھتا حد سے نکل جا نے والوں کو “ (سورة المائدة 5 : 87 )
نکا ح کر نے کے بعد عو رت مر د پر حلا ل ہو جا تی ہے اور اس آیت میں و اضح بتلا یا جا رہا ہے کہ پاکیزہ حلا ل چیز کو حرام کر نا حد سے نکل جا نا ہے یعنی گنا ہ ہے بلا وجہ طلا ق ایسی بات ہے کہ وہ اس پا کیزہ عو رت کو اس مرد پر حرام کر دے گی اور مر د گنا ہ گا ر ہو گالہٰذاثا بت ہو ا کہ بلا وجہ طلا ق حرام ہے یہی با ت اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک اور جگہ بھی بیان فرمائی ہے ۔
اے نبی کیوںحرام کر تا ہے اس چیز کو کہ حلا ل کی ہے اللہ نے واسطے تیرے چا ہتا ہے تو رضا مندی بی بیوں اپنی کی اور اللہ بخشنے والا مہر بان ہے “ (سورة التحریم 66 : 1 )

دلیل نمبر3
البتہ تحقیق ہے واسطے تمہا رے بیچ رسو ل اللہ کے پیر وی اچھی واسطے اس شخص کے کہ امید رکھتا ہے اللہ کی اور دن پچھلے کی اور یا د کر تا ہے اللہ کو بہت “ (سورةالا حزا ب 33 : 21 )
 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایما ن والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ حضور پاک حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگا نی کی پیر وی کر یں حضو ر پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری زندگی کبھی بھی طلا ق نہ دی۔

دلیل نمبر4
یہ کہ منکوحہ عورت اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ایک نعمت ہے اور بلا وجہ طلا ق دے کر اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ٹھکرا نا گنا ہ اور حرام ہے ۔

دلیل نمبر5
 سورة المجادلہ  58 : 10  میں اللہ تعالیٰ نے کا نا پھو سی (کا ن میں با ت کر نا کہ دو سرے نہ سن سکیں) سے منع فر ما یا ہے کہ اس سے دو سر ے قریب بیٹھے ہو ئے لو گوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی بھی مسلمان کی ذرا سی دل شکنی بر دا شت نہیں کر تا تو پھر بلا وجہ طلا ق جو بہت بڑی دل شکنی ہے اس کی اجا زت کیسے دے سکتا ہے لہٰذابلا وجہ طلا ق حرام ہے ۔

دلیل نمبر6
اللہ تعالیٰ کے مزا ج کی ایک صف یہ بھی ہے کہ اللہ تعا لیٰ انسانوں پر ظلم نہیں چا ہتا اور نہ ہی ظلم کو پسند کر تا ہے بلکہ ظلم کر نے سے اللہ تعالیٰ کو نفر ت ہے ۔
یہ کہ اللہ ٰ نہیں ظلم کر نے والا واسطے بندوں کے “ (سورة آل عمران 3 : 182 )
یہ کہ اللہ ٰ نہیں ظلم کر نے والا واسطے بندوں کے“ (سورة الانفال 8 : 51 )
لہٰذاجو بھی بات یا عمل ظلم ہو گی اس کی اجا ز ت اللہ تعالیٰ کی طر ف سے نہیں ہے اور بلا وجہ طلا ق تو عورت پر سرا سر ظلم ہے کہ جس کی اجا زت اللہ تعالیٰ نہیں دے سکتا لہٰذا بلاوجہ طلاق حرام ہے ۔

دلیل نمبر7
یہ کہ متعہ جس میں پہلے سے طلا ق طے ہے حرام ہے تو پھر بلا وجہ طلا ق تو اس سے بھی بُری چیزہے لہٰذا یہ بھی حرام ہے ۔

دلیل نمبر8
با ئبل کے الفا ظ
 ”ملاکی: باب 2: 15۔ پس تم اپنے نفس سے خبر دار رہو اور کو ئی اپنی جوانی کی بیوی سے بے وفا ئی نہ کرے۔16۔ کیو نکہ خدا وند اسرا ئیل کا خدا فر ما تا ہے کہ میں طلا ق سے بے زار ہوں اور اُس سے بھی جو اپنی بیوی پر ظلم کر تا ہے رب الا فواج فر ما تا ہے اس لیے تم اپنے نفس سے خبر دا ر رہو تا کہ بے وفائی نہ کرو
اس تحریر پر غور کر یں کہ اس میں واضح اور صاف طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ طلا ق سے بے زار ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو طلا ق سے نفر ت ہے اور بلا وجہ طلاق دینا اپنی بیوی سے بے وفا ئی کر نا ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فر ما دیا ہے ۔

دلیل نمبر9
انجیل مقدس کے الفا ظ ملا حظ فر ما ئیں ۔
متّی :باب 5:32۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اُس سے زنا کراتا ہے اور جو کوئی اُس چھوڑی ہوئی سے بیاہ(نکاح) کرے وہ زنا کرتا ہے۔
انجیل مقدس کی اس تحریر پر تو جہ دیں تو صا ف معلو م ہو جا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انتہائی مجبوری میں تو طلاق دینے کی اجا زت دی ہے لیکن معمولی وجہ پر طلا ق دینے سے منع کر دیا گیا ہے ۔
قر آن پاک میں یہ بندہ دو چیزیں (با تیں )ایسی پا تا ہے کہ جو انتہا ئی مجبو ری میں تو حلا ل ہیں ورنہ حرام
1۔ سور کا گو شت
2۔ طلا ق
مندر جہ با لا تحریرسے یہ با ت ثا بت ہو جا تی ہے کہ بلا وجہ یا معمو لی وجہ پر طلا ق دینا گنا ہ اور حرام ہے اور ایسی طلا ق” طلا قِ با طل“ کہلا ئے گی ۔

طلا ق دینے سے پہلے کے مر احل
اللہ تعالیٰ نے قر آن پاک میں طلا ق دینے کی نو بت سے پہلے بھی کچھ حدود بیان فر ما ئی ہیں تاکہ لوگ یکد م طلا ق دینے ہی کے بارے میں نہ سو چنے لگ جا ئیں ۔قر آن پاک میں طلا ق دینے سے پہلے کے مراحل اس بات کی طر ف و اضح اشا رہ دے رہے ہیں کہ طلا ق سے پہلے خاوند اور بیوی کا ان مر احل سے گذرنا ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگر کو ئی خاوند ان مر احل کے بغیر یکدم طلا ق دے وہ طلا ق با طل بھی ہو سکتی ہے ۔
 ” مر د قا ئم رہنے و الے ہیں یعنی حاکم ہیں اوپر عو رتوں کے بسبب اس کے کہ بزرگی دی اللہ نے بعضے ان کے کو اوپر بعض کے اور بسبب اس کے کہ خر چ کر تے ہیں مالوں اپنے میں سے پس نیک بخت عو رتیں فرمانبر دار ہیں نگہبا نی کر نے والی ہیں بیچ غا ئب کے سا تھ محا فظت اللہ کے اور جو عو رتیں کہ تم ڈر تے ہو چڑھا ئی اُن کی سے پس نصیحت کرو اُنکو اور چھوڑ دو اُن کو خو اب گا ہ کے اور ما رو ان کو پس اگر کہا ما نیں تمہا را پس مت ڈھو نڈو اوپر ان کے راہ اور تحقیق اللہ ہے بڑا بلند ٭اور اگر ڈرو تم خلا ف سے در میان ان دو نوں کے پس مقرر کر و ایک منصف مر د کے لو گوں میں سے اور ایک منصف عورت کے لو گوں میں سے اگر ارادہ کر یں یعنی دو منصف صلح کروانا تو فیق دے گا اللہ درمیان ان دونوں کے تحقیق اللہ ہے جا ننے والا خبر دار “ (سورة النساء 4 : 34،35 )
ان آیات میں سب سے پہلے اللہ تعا لیٰ نے عو رتوں کو خا ص طو رپر یہ با ت سمجھا دی ہے کہ مر د عو رت پر حاکم ہے اور عو رت اپنے خا وند کا احترام کرے کہ یہ حاکم بنا نا اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ہے لہٰذاحاکم سمجھے اور اپنے خاوند کی خدمت عاجزی سے کر ے پھر اللہ تعالیٰ نے مر دو ں کو سمجھا یا ہے کہ عو ر ت( تمہا ری بیوی) دین اسلا م کی شریعت کے مطا بق تمہاری عزت اور خدمت نہیں کر تی تو تم اس کو سمجھاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے مر د کا رتبہ بلند رکھا ہے لہٰذا تم اللہ تعالیٰ کا کہنا ما نتے ہوئے میر ی فرمانبرداری کیا کر واور پھر بھی وہ تم سے لڑا ئی (چڑھا ئی ) کر تی ہے تو تم اس سے بو ل چا ل چھو ڑ دو اور خوا ب گا ہ میں اس کے پا س مت جا ؤ لیکن اس با ت کا بھی اس عورت پر کو ئی اثرنہیں ہو تا تو پھر تم اسے ما ر سکتے ہو یہ ما ر جلد کی حد تک ہونی چاہیے نہ کہ ہڈی تو ڑ دو اگر ما ر کھا نے کے بعد وہ کچھ ٹھیک ہو جا تی ہے تو تم پھربھی اسے طلاق دینے کا نہ سو چو ۔پھر اللہ تعالیٰ معا شر ے کے لو گوں کو مخا طب کر کے فر ما رہا ہے کہ اگر تم لوگ کسی میا ں بیوی میں نا چاکی دیکھو تو ان میں صلح کرا نے کیلئے ایک منصف مر د او رایک منصف عورت کے ذریعے صلح کرانے کی کو شش کر و۔ ان دو نو ں میا ں اور بیوی کی باتیں غورسے سنو اگر مر د قصور وار ہے تو مر د کو سمجھا ؤ کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہو ئے عو رت پر ظلم وغیرہ نہ کر ے اور اگر عو رت قصور وار ہے تو عو رت کو سمجھا یا جا ئے کہ مر د کو اللہ تعالیٰ نے بڑا درجہ دے کر حاکم مقرر کیا ہے ۔تم پر فر ض ہے کہ اپنے میاں کی فر مانبر دا ری کرو۔ اللہ تعالیٰ تو فیق دے گا اور صلح ہو جا ئے گی ۔مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نہیں چا ہتا کہ طلا ق تک نو بت پہنچے ۔
 توجہ: یہ کہ اگرتم عو رت کو گھر میں بسا نا چا ہتے ہو تو ما رسکتے ہو اور اگر طلا ق دینا چا ہتے ہو تو مار نہیں سکتے کہ طلا ق کہہ دینا خو دبہت بڑی مار ہے ۔
 ” اور مت بند رکھو انکو ایذا دینے کو “ (سورة البقرہ 2 : 231)
تر جمہ پڑھیں سور ة البقرہ کی آیت نمبر 227تا 232 کا از شاہ رفیع الدین محدث دہلوی۔
اور اگر قصد کر یں طلاق کا پس تحقیق اللہ سننے والا جا ننے والا ہے٭ اور طلاق والیاں انتظا رکر یں سا تھ جانو ں اپنی کے تین حیض تلک اور نہیں حلا ل وا سطے ان کے یہ کہ چھپا ویں جو کچھ پید اکیا اللہ نے بیچ رحمو ں اُنکے کے اگر ہیں ایما ن لا ئی سا تھ اللہ کے اور دن پچھلے کے اور خاوند ان کے بہت حقدا ر ہیں ساتھ پھیر لینے (واپس کر لینے )انکے کے بیچ اس کے اگر چاہیں صلح کر نا اور واسطے ان کے ہے ما نند اس کے جو اوپر ان کے ہے سا تھ اچھی طر ح کے اور واسطے مر دوں کے اوپر ان کے درجہ ہے اور اللہ غالب ہے حکمت والا ٭یہ طلاق دو با ر ہے پس بند رکھنا ہے سا تھ اچھی طر ح کے یا نکال دینا ہے سا تھ اچھی طر ح کے اور نہیں حلا ل وا سطے تمہا رے یہ کہ لے لو اس چیز سے کہ دیا تم نے ان کو مگر یہ کہ ڈریں دونوں یہ کہ نہ قا ئم رکھیں گے حدیں اللہ کی کو پس اگر ڈرو تم یہ کہ نہ قا ئم رکھیں گے حدیں اللہ کی کو پس نہیں گنا ہ اوپر ان دونوں کے بیچ اس چیز کے کہ بدلا دے عو رت سا تھ اس کے۔ حدیں اللہ کی پس مت گذرو اُن سے اورجو کوئی گذر جاوے حدوں اللہ کی سے پس یہ لوگ وہ ہیں ظالم ٭پس اگر طلاق دی اس کو پس نہیں حلال ہوتی واسطے اس کے پیچھے اس کے یہاں تک کہ نکاح کرے اور خصم سے سوائے اُسکے۔ پس اگر طلاق دے اس کو پس نہیں گناہ اُوپر ان دونوں کے یہ کہ پھر آویں آپس میں اگر جانیں یہ کہ قائم رکھیں گے حدیں اللہ کی اور یہ ہیں حدیں اللہ کی بیان کر تا ہے ان کو وا سطے اس قوم کے کہ جانتی ہے ٭اورجب طلا ق دو تم عورتوں کو پس پہنچیں وقت اپنے کو پس بند رکھو ان کو ساتھ اچھی طر ح کے یا نکال دو ان کو ساتھ اچھی طر ح کے اور مت بند رکھو انکو ایذا دینے کو تو کہ زیا دتی کرو اور جو کو ئی کرے گا یہ پس تحقیق ظلم کیا اس نے جان اپنی کو اور مت پکڑو آیتوں اللہ کی کو ٹھٹھا اور یاد کرو نعمت اللہ کی کو اوپر اپنے اور جو کچھ اتا را ہے اوپر تمہارے کتاب سے اورحکمت سے نصیحت کر تا ہے تم کو ساتھ اسکے اور ڈرو اللہ سے اور جانو یہ کہ اللہ سا تھ ہر چیز کے جاننے والا ہے ٭اور جب طلا ق دو تم عورتوں کو پس پہنچ جا ویں عدت اپنی کو پس مت منع کر و اُن کو یہ کہ نکا ح کر یں خاوندوں اپنے سے جب راضی ہو ں آپس میں سا تھ اچھی طر ح کے یہ با ت نصیحت کیا جاتا ہے سا تھ اس کے جو کو ئی ہو تم میں سے ایمان لا وے سا تھ اللہ کے اور دن آخر ت کے یہ بہت پاکیزہ ہے واسطے تمہا رے اور بہت پاک ہے اور اللہ جا نتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“ (سورة البقرة 2 : 227 تا 232)

طلاق کی اقسام
یہ بندہ دین اسلا م میں طلا ق کی چھ اقسا م محسو س کر تا ہے ۔
1 ۔ طلا ق با طل
2۔ طلا ق غیرموثر
3۔ طلا ق موثر
4۔ طلا ق با ئن
5۔ طلا ق مغلطہ
 6۔ طلا ق مغلطہ کبیرہ

طلاق کی اقسام کا تعارف

1۔ طلاق باطل
یہ وہ طلا ق ہے کہ جس کی کو ئی بھی حیثیت نہیں ۔
         
2۔ طلاق غیرموثر
یہ وہ طلا ق ہے جو شرو ع شر وع میں ایک یا دو بار دی جا تی ہے ۔یہ تنبیہ (وا رننگ )کے طور پر طلا ق کہلا ئے گی ۔اس طلا ق سے میاں بیوی کے ازدواجی تعلقا ت پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔کیو نکہ طلا ق مو ثر جب ہو تی ہے کہ تین با ر ہو جا ئے ۔اس طلا ق غیر مو ثر کے بار(گنتی) شما ر ہو جا ئیں گے ۔
         
3۔ طلاق موثر
جب طلا ق دو با ر کی حد سے گذر کر تین با ر کی حد میں پہنچ جا ئے تو وہ طلا ق موثر بن جا ئے گی ۔اس طلا ق موثر کے بعد میاں بیوی کا ازدواجی تعلق رکھنا ختم ہو جا تا ہے ۔لیکن میاں اپنی بیو ی کو تین حیض تلک اپنے گھر سے با ہر نہیں نکا ل سکتا ۔تو جہ کر یں سو رة الطلا ق کی آیت نمبر 1 کا تر جمہ
 ”مت نکا ل دوان کو گھروں اُن کے سے اور نہ نکل جا ویں “ (سورة الطلاق 65 : 1)
 اور سور ة البقرہ کی آیت نمبر228میں
اور طلاق والیاں انتظا رکر یں سا تھ جا نو ں اپنی کے تین حیض تلک “ (سورة البقرة  2 : 228)
 اس طلا ق مو ئثر میں اگر میاں تین حیض (تقریبا ً 90)دن میں اگر اپنی بیو ی سے رجعت کر لے تو اس طلاق کی حیثیت ختم ہو جا تی ہے ۔اس لیے علماءنے اس طلاق کا نام طلاق رجعی رکھا ہوا ہے بمطابق سورةالبقرہ کی آیت نمبر228
اور خاوند ان کے بہت حقدا ر ہیں ساتھ پھیر لینے (واپس کر لینے )انکے کے“ (سورة البقرة 2 : 228)
 چاہے عورت کی خوشی نہ ہو۔

واقعہ
عبدیزید ابو رکا نہ رضی اللہ عنہ اور اس کی بیوی ام رکانہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں جبکہ خاص طور پر یہ احساس بھی دلایا گیا کہ طلاق تین بار ہو چکی ۔آپ جناب حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رجوع کرنے کا حکم دیا۔ (سنن ابو داؤد، کتاب تفریع، ابواب الطلاق، حدیث نمبر2196)
         
4۔ طلاق بائن
یہ وہ طلاق ہے کہ جس میں میاں کا رجعت کا حق ختم ہو جا تا ہے لیکن اگر وہی میا ں بیوی دو با رہ اپنا گھر بسانا چا ہیں تو آپس میں نکا ح کر سکتے ہیں ۔بمطابق سورة البقرہ کی آیت نمبر232
” پس مت منع کر و اُن کو یہ کہ نکا ح کر یں خاوندوں اپنے سے جب راضی ہو ں آپس میں سا تھ اچھی طر ح کے“ (سورة البقرة 2 : 232 )
         
5۔ طلاق مغلطہ
یہ وہ طلاق ہے کہ جس میں میاں بیوی آپس میں نکاح بھی نہیں کر سکتے جب تک کہ بیوی کسی اور خاوند سے نکا ح نہ کر لے ۔بمطابق سورة البقرہ آ یت نمبر230
 ً پس نہیں حلال ہوتی واسطے اس کے پیچھے اس کے یہاں تک کہ نکاح کرے اور خصم سے سوائے اسکے۔“ (سورة البقرة 2 : 230 )
         
6۔ طلاق مظلطہ کبیرہ
یہ وہ طلاق ہے جس میں میاں بیوی آپس میں ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہو جاتے ہیں۔یہ کہ ان کے آپس میں نکاح کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی ۔
         
طلاق کی قِسموں کی حدوںکی تفصیل
سارا جھگڑا اور الجھاؤ اس بات کا پڑا ہوا محسوس ہوا کہ ان طلاقو ں کی حدود کیا ہے اور کسی انسان نے جو طلاق دی ہے وہ طلاق کس زمرے میں آتی ہے۔
جب کوئی میاںاپنی بیوی سے ناراض ہو وہ اسے ایک بار طلاق دے کیونکہ آیت نمبر2:229میں ارشاد فرمایا گیاکہ ”یہ طلاق دو با ر ہے “ یہ بار کا لفظ کہہ رہا ہے کہ بار درجہ بدرجہ استعمال ہو گا ایک بار دوبار تین بار۔
توجہ: مشترکہ لفظ کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ لفظ مختلف بار مختلف معنوں میں استعمال ہو گا مثلا ًجیسے لفظ ”نور “ ہے ۔نور کہا دن کی روشنی کو ، نور کہا قرآن پاک کو ،نور کہا دین اسلام کو ، عقل کو بھی نور کہتے ہیں،دودھ کو بھی نور کہتے ہیں اورآنکھ کی بینائی کو بھی نورکہتے ہیں۔تو پھر طلاق کے بارے میں اللہ تعالیٰ کایہ فرمانا کہ یہ طلاق دو بار ہے کیا یہ دوبارصرف ایک بار استعمال ہوگا؟ نہیں نہیں یہ دوبار فرمانے کا مطلب اصل میں یہ ہے کہ طلاق کی کوئی بھی قسم دوبار ایک حد میں رہے گی اور تیسری بار درجہ میں بڑھ جائے گی ۔یہ اللہ تعالیٰ کا انداز بیان ہے جیسے حروف مقطعات بھی اللہ تعالیٰ کا انداز بیان ہیں۔

طلاق باطل یہ وہ طلاق ہے جو بلا وجہ دی جائے اور دین اسلام کے طریقے سے ہٹ کر دی جائے۔اس طلاق کی کوئی حیثیت بھی نہیں ہے ۔حیثیت ہے تو دین اسلام کے مطابق طلاق دینے کی حیثیت ہے دین اسلام کے طریقہ کے مطابق جب پہلی بار اور دوسری بار طلاق دی جائے گی تو وہ طلاق غیر موثر ہو گی ۔ طلاق موثر جب ہو گی کہ تین بار ہو چکے۔ یہ ایک بار طلاق دینا تنبیہ (وارننگ)ہے کہ اگر بیوی (عورت)فرمانبرداری نہ کرے گی تو اور طلاقیں بھی دے دوںگا ۔کیونکہ ایک طلاق کی کوئی حیثیت نہیں ، اس لیے میاں بیوی اپنے ازدواجی تعلقات برقرار رکھیں اور بیوی کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے اپنے میاں کی اچھی طرح فرمانبرداری کرنی شروع کر دینی چاہیے ۔ایک طلاق ہو چکی لیکن اس کا زندگی پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔پھر کئی ماہ یا کئی سال کے بعد پھر سے نا چاکی ہو جاتی ہے اور قصور عورت کا ہو تو میاں پھر سے طلاق دے سکتا ہے اور اگر طلاق دیتا ہے یہ دوسری بار طلاق ہو گی ۔بیوی کو خطرہ محسوس ہوتے ہوئے اپنے میاں کی خدمت اور فرمانبرداری خوب اچھے طریقے سے شروع کر دینی چاہیے کہ تیسری بار طلاق دینے کی نوبت نہ آئے۔ دوبار طلاق دینے کی بھی کوئی حیثیت نہیں کہ طلاق موثر جب ہوتی ہے کہ تین بار ہو چکے ۔ دو بار طلاق ہونے کے بعد بھی میاں بیوی ازدواجی تعلقات برقراررکھیں اور پیار محبت سے رہیں کہ تیسری بار طلاق کی نوبت نہ پہنچے اس حد تک یہ شروع کی دو بار طلاق دینا طلاق غیر موثر کہلائے گی۔ پھر کئی ماہ یا کئی سال بعد ناچاکی ہو جاتی ہے اور قصور عورت کا ہو تو پھر میاں تیسری بار بھی طلاق دے دیتا ہے۔ تین بارطلاق ہونے پر طلاق موثر ہو جاتی ہے اس طلاق موثرمیں میاں بیوی آپس میں ازدواجی تعلقات بر قرار نہیں رکھ سکتے کہ طلاق تین بار ہو کر موثر ہو چکی ہے۔طلاق موثر ہونے کی صورت میں تین حدیں بنتی ہیں۔
1۔ یہ کہ میاں بیوی آپس میں ازدواجی تعلقات برقرار نہیں رکھ سکتے ۔
2۔ یہ کہ میاںاپنی بیوی کو تین حیض تک اپنے گھر سے نہیں نکال سکتا۔توجہ کریں
مت نکا ل دوان کو گھروں اُن کے سے اور نہ نکل جا ویں۔۔۔نہیں جانتا تو شاید کہ اللہ پیدا کر دے پیچھے اس کے کچھ بات“ (سورة الطلاق 65 : 1 )
 یعنی راضی نامہ یا رجعت کے حالات۔
3۔ یہ کہ اس طلاق موثر میں میاں کو اختیار حاصل ہے کہ تین حیض کی مدت (تقریباً90دن)اگر چاہے تو اپنی بیوی کی طرف رجوع کرتے ہوئے رجعت کا اعلان کر دے اور اپنی دی ہوئی تین طلاقوں کو ختم کر سکتا ہے اور میاں بیوی پھر سے راضی خوشی اپنا گھربساتے ہوئے ازدواجی تعلقات برقرار رکھ سکتے ہیں اور اس طلاق موثر کی حیثیت بھی ختم ہو جاتی ہے ۔ترجمہ آیت نمبر2:228 کا حصہ
اور خاوند ان کے بہت حقدا ر ہیں ساتھ پھیر لینے (واپس کر لینے )انکے کے بیچ اس کے اگر چاہیں صلح کر نا “ (سورة البقرة 2 : 228 )
یہ پہلی دفعہ تین بار طلا ق کی نو بت تک پہنچنا طلاق مو ثر یا طلا ق رجعی کہلا تا ہے کہ میا ں تین حیض کی مد ت کے اندر تک بیوی سے رجو ع کر سکتا ہے اور بغیر نکا ح کے رکھ سکتا ہے کیو نکہ بیوی ابھی تک اس کے گھر میں مو جو د ہے یہا ں تک حد ہے طلا ق مو ثر یا طلا ق رجعی کی ۔

عدت کی مدت
عدت کی مدت کی پانچ صور تیں ہے: ۔
1۔ بغیر حمل والی کی
2۔ حمل والی کی
3۔ بیوہ کی
4۔ ایسی عورتیں جن کوحیض نہیں آتا
5۔ کہ جن کو ہاتھ نہ لگایا ہو ۔
اس بارے میں قرآن پاک میں تفصیل موجود ہے کہ
         
1۔ بغیرحمل والی کی
اور طلاق والیاں انتظا رکر یں سا تھ جا نو ں اپنی کے تین حیض تلک اور نہیں حلا ل وا سطے ان کے یہ کہ چھپاویں جو کچھ پید اکیا اللہ نے بیچ رحمو ں اُنکے کے“ (سورة البقرة  2 : 228 )
یہاں عدت کی مدت تین حیض فرمائی گی یہ مدت تقریباً64دن سے لے کر 96دن تک کسی بھی مدت میں پوری ہو سکتی ہے مثلاًطلاق کے دو دن بعد اگر حیض آجائے تو دوسرا حیض ایک ماہ دو دن بعد آیا اور تیسراحیض دو ماہ دو دن بعد آیا تو یہ مدت تقریباً64یا 65دن میں مکمل ہو جائے گی اسی طرح یہ مدت 96دن تک کی بھی مدت میں مکمل ہو سکتی ہے۔ یہ خیال رہے کہ پہلے حیض ،دوسرے حیض اور تیسرے حیض کی اطلاع طلاق دینے والے مرد کو دی جائے تاکہ اگر رجعت کرنے کے بارے میں اُس کے دل میں خیال ہے تو وہ سوچ لے کہ اتنی مدت گذر چکی ہے۔
اور نہیں حلا ل وا سطے ان کے یہ کہ چھپا ویں جو کچھ پید اکیا اللہ نے بیچ رحمو ں اُنکے کے اگر ہیں ایمان لا ئی سا تھ اللہ کے اور دن پچھلے کے “ (سورة البقرہ  2 : 228 )
گو کہ یہ آیت طلاق والیوں سے بات کرتے ہوئے کہی گئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ آیت دوسری عورتوں کے لیے نہیں اور وہ اپنا پیٹ چھپا لیں۔ نہیں یہ آیت تمام عورتوں کے لیے ہے۔ اس آیت کی رو سے پیٹ میں پیدا ہوئے بچے کا نہ بتلانا اور چھپانا گناہ ہے۔ خاص طور پر جب کسی عورت کے پیٹ میں پہلا بچہ پڑتا ہے تو وہ گھر والوں اور ہمسایوں سے شرم وغیرہ کی وجہ سے چھپانے لگتی ہے۔ چھپانا نہ چاہیے۔ 

2۔ حمل والی
 حمل والی کی مدت کے بارے میں قرآن پاک میں فرمایا گیا
 ”اور حمل والیاں اور وقت اُن کایہ کہ رکھ دیں حمل اپنا یعنی جن لیویں “ (سورة الطلاق 65 : 4 )
ایسی عورتوں کی عدت ایک دن سے لے کر 9ماہ تک ہوتی ہے طلاق کے بعد چند دن یا چند ماہ مطلب یہ کہ بچہ جن لینے تک اگر بچہ ہونے میں چند دن ہیں تو خاوند کو معلوم ہے کہ حمل ہے اور اگر معلوم نہیں تو خودبخود معیاد بڑھ گئی سوچنے کے لیے کہ بچہ پیٹ میں موجود ہے رجعت کروں یا نہ کروں ۔ یعنی خا وند بچے کے جنم لینے تک اس با ت کا پا بند ہے کہ اس عو رت کو اپنے گھر میں رکھے اور بچہ کے جنم لینے تک رجو ع کر سکتا ہے بمطابق سورة الطلاق 65 : 4
         
3۔ بیوہ کی
 ”او رجو لوگ کہ مر جاتے ہیں تم میں سے اور چھوڑ جاتے ہیں بی بیاں اپنی وہ انتظا ر دیویں جان اپنی کو چار مہینے اور دس دن کا “ (سورة البقرة  2 : 234 )
ایسی عورتوں کی عدت کی مدت چار ماہ اور دس دن ہے۔
         
4۔ وہ عورتیں جن کو حیض نہیں آتا
 ” اور وہ عورتیں جو ناامید ہو گئی ہیں حیض سے بی بیوں تمہاری میں سے اگر شک میں ہو تم پس عدعت اُن کی تین مہینے ہے “ (سورة الطلاق 65 : 4 )
ایسی عورتوں کی عدت کی مدت 90دن ہے ۔
         
5۔ جن عورتوں کو ہاتھ نہیں لگایا
 ”اے لوگوں جو ایمان لائے ہو جس وقت کہ نکاح کرو تم ایمان والیوں کو پھر طلاق دو تم اُن کوپہلے اس سے کہ ہاتھ لگاؤ اُن کو پس نہیں واسطے تمہارے اوپر اُن کے گنتی دنوں کی کہ گنوا سکو پس کچھ فائدہ دو اُن کواور رخصت کر و اُن کو رخصت کرنا اچھا“ (سورةالا حزا ب 33 : 49 )
ایسی عورتوں کی عدت کی مدت نہیں ہوتی اور یہ کہ فرمایا گیا
 ” مت محکم کرو گرہ نکاح کی یہاں تلک کہ پہنچے لکھا ہوا حکم خدا کا وقت اپنے کو “ (سورة البقرة 2 : 235)
اس آیت مبارکہ میں حکم یوں بھی دیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص کسی ایسی عورت سے کہ جو عدت کی مدت میں بیٹھی ہو نکاح نہ کرے جب تک کہ عدت کی مدت پور ی نہ ہولے ۔

حضر ت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی میں ایک وا قعہ یو ں ہے کہ طلا ق موثر کے بعد تین حیض کی مدت کے بعد عو رت نہا رہی تھی کہ اس کے خا وند نے رجعت کا اعلان کر دیا لو گو ں کے خیا ل میں رجعت کا وقت گذر چکا تھا ۔معا ملہ حضو رپا ک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پا س آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رجعت قبو ل فر ما ئی اور عو رت اسی خا وند کے پاس رہی ۔

اگر میاں تین حیض کی مدت میں رجعت نہ کر ے تو تین حیض کی مد ت گذر جا نے کے بعد یہی طلا ق مو ثر طلا ق با ئن بن جا ئے گی اور بیوی (عو رت )خا وند کا مکان چھوڑ دے گی اور عو رت مر دسے بالکل آزاد ہو جائے گی ۔ایک تو طلا ق کا طلا ق با ئن کی حد تک پہنچ جا نا یہ ہے جو ہم لکھ چکے ہیں اور بھی کئی وجو ہا ت ہیں جن کی وجہ سے طلا ق، طلا ق با ئن بن جاتی ہے ۔
دو مر تبہ طلاق مو ثر دینے کے بعد میا ں بیو ی سے رجعت کر سکتا ہے لیکن اس کے بعد بھی اگر طلا ق دے گا تو وہ پہلی طلا ق یعنی سا تویں با ر طلا ق دینا طلاق با ئن ہو جائے گی اور عو رت عدت کی مدت بھی اس جگہ گذارے لیکن رجعت کا حق ختم ہو گیا ۔
پہلے وقت میں عر ب کے لو گ لا تعدا د مر تبہ طلا ق دیتے اور رجو ع کر لیتے تھے اور یو ں کر تے تھے کہ عورت کو طلا ق دے کر اس کو عدت میں بٹھلا ئے رکھتے تھے اور جب عدت کی مد ت پو ری ہو نے کو ہو تی تو رجعت کر لیتے اور پھر طلا ق دے کر عدت میں بٹھلا ئے رکھتے تھے اور یہ حر کت بار بار کر تے تا کہ عو رت کو تنگ اور پریشا ن رکھیں۔ عورت کوساری زندگی لٹکا ئے رکھتے ۔ آزاد (با ئن )نہ ہو نے دیتے کہ وہ عورت کہیں دو سری جگہ نکا ح نہ کر لے ۔ذلیل و خوار کئے رکھتے ۔لیکن دین اسلام جو کہ دین انسا نیت ہے نے ایسی خبیث رسم کوکہ جس سے عو رت پر ظلم ہو تا تھاکو ختم کر دیا اور دوبار تک رجو ع کر نے کی اجا زت دی کہ تیسری با روہ خو د بخود با ئن ہو کر آزاد ہو جا ئے اور کسی دو سری مر د سے نکا ح کر لے یا نکاح کر سکے ۔
طلا ق با ئن کی حد تک پہنچ کر بیوی اپنے خا وند سے بالکل آزاد ہو جائے گی ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر بھی قرآن پاک میں انسانوں کیلئے آسانی رکھی ہے کہ اگر وہی میاں بیوی پھر سے اپنا گھر بسانا چا ہتے ہیں تو بسا سکتے ہیں ۔لیکن ایسی حا لت میں اُنکو آپس میں دو بارہ نکا ح کر انا پڑے گا ۔
توجہ : ”اور جب طلا ق دو تم عورتوں کو پس پہنچ جا ویں عدت اپنی کو پس مت منع کر و اُن کو یہ کہ نکاح کر یں خاوندوں اپنے سے جب راضی ہو ں آپس میں سا تھ اچھی طر ح کے یہ با ت نصیحت کیا جاتا ہے ساتھ اس کے جو کو ئی ہو تم میں سے ایمان لا وے سا تھ اللہ کے اور دن آخر ت کے یہ بہت پاکیزہ ہے وا سطے تمہارے اور بہت پا ک ہے اور اللہ جا نتا ہے اور تم نہیں جا نتے ۔“(سورة البقرة 2 : 232 )
ایسے نکا ح کا ذکر تفسیر ان کثیر میں بھی ملتا ہے جو یہ آیت آسمان سے اتر نے کے بعد یہ آیت سن کر کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کو سن کر اللہ تعالیٰ کے آگے سر تسلیم خم کر تے ہوئے حالانکہ عو رت کا بھا ئی قسم کھا بیٹھا تھا کہ اس کے پہلے خا وند سے نکا ح نہ ہو نے دوں گا ۔اس کے علا وہ
1۔ عو رت کے مطا لبہ پر اس کے خا وند کا تین با ر طلا ق دینا ۔طلا ق بائن ہو گا ۔
2۔ عدا لت میں خلع کا فیصلہ عو رت کے حق میں دیا گیا ہو تو وہ بھی طلا ق با ئن ہو گی ۔
3۔ اگر کسی مر د نے عو رت کو ہا تھ لگا نے سے پہلے طلا ق دے دی تو وہ بھی طلا ق با ئن ہو گی ۔
4۔ عو رت نے زنا کیا ہو اور بات ثبو ت کو پہنچ گئی ہو تو اس کے میاں کا ایک ہی وقت میں تین بار طلا ق کہنا بھی طلا ق با ئن ہو گی ۔
دو بار کی حد تک میا ں بیوی طلاق با ئن کی حد کو پہنچ کر آپس میں نکا ح کر سکتے ہیں ۔ یہا ں تک حد ہے طلا ق بائن کی ۔
لیکن جب دو با رطلا ق با ئن دے کر تیسری با ر طلا ق دے گا تو وہ طلا ق با ئن نہ ہو گی بلکہ طلا ق مغلطہ بن جائیگی کہ جس میں میا ں بیوی آپس میں نکا ح بھی کر نا چا ہیں تو نکا ح نہیں کر سکتے جب تک کہ عو رت کا دوسری جگہ دوسر ے خا وند سے نکا ح نہ ہو جا ئے ۔ تر جمہ پڑھیں سو رة البقرا کی آیت نمبر230کا
پس اگر طلاق دی اس کو پس نہیں حلال ہوتی واسطے اس کے پیچھے اس کے یہاں تک کہ نکاح کرے اور خصم سے سوائے اسکے۔۔۔“ (سورة البقرة 2 : 230 )
(یا د رہے کہ دین اسلا م میں عارضی طو ر کا اور معیا د مقر ر کر کے نکا ح کر نا گنا ہ ہے)
کسی دوسرے مر د سے نکا ح کرنے کے بعد اگر دو سرا خا وند فو ت ہو جائے یا ایسے حا لا ت بن جائیں کہ اِن دو نو ں میں طلا ق با ئن ہو جا ئے تو وہ عو رت اور اس کاپہلا خاوند آپس کی رضا مندی سے اپنا گھر بسانا چا ہیں توآپس میں نکا ح کر سکتے ہیں۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طر ف آسانی کار استہ ہے ۔
اسی طر ح دو با ر طلا ق مغلطہ کے بعد بیوی طلا ق مغلطہ کی حد پو ری کر تے ہو ئے یعنی دو سر ے خاوند سے نکاح اور پھر طلا ق با ئن کی حد میں پہنچ کر آپس میں نکا ح کر سکتے ہیں لیکن اس کے بعد پھر اگر اس عورت کو طلا ق دے گاتو پھر طلا ق مغلطہ کبیرہ بن جا ئےگی اور وہ عورت اس مر د پر ہمیشہ کیلئے حرام ہو جا ئے گی۔
یا د رہے کہ اللہ تعالیٰ ایک قسم کی طلا ق کو دوبا رتک ایک قسم میں رہنے دیتا ہے لیکن جب تیسری بار ہوجائے تو وہ طلا ق سخت ہو نے میں اپنا درجہ بڑھ جا ئے گی ۔اللہ تعالیٰ کی طر ف سے تو آسانی ہے ۔لیکن مرد جو ں جو ں درجے بڑھے گا اپنے لیے مشکل پیدا کر تا چلا جا ئیگا ۔

طلاق دینے کاطریقہ بمعہ بحث کے
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتا ب قر آن مجید میں اتنی تفصیل بیا ن فر مائی ہے کہ کسی بھی پہلو یازاویے سے کو ئی تشنگی با قی نہیں رہتی۔ سمجھنے کیلئے غورو فکر کی ضرو رت ہے ۔سورة الطلا ق کی پہلی دو آیا ت کا تر جمہ
اے نبی جس وقت طلا ق دو تم عو رتوں کو پس طلا ق دو تم اُن کو وقت عدت اُن کی کے اور گنو تم عدت کو اور ڈرو اللہ پر وردگا راپنے سےمت نکا ل دوان کو گھروں اُن کے سے اور نہ نکل جا ویں مگر یہ کہ کر یں بے حیا ئی ظا ہر اور یہ ہیں حدیں اللہ کی اور جو کو ئی کہ نکل جا وے حدوں اللہ کی سے پس تحقیق ظلم کیا اس نے اوپر جان اپنی کے نہیں جانتا تو شاید کہ اللہ پیدا کر دے پیچھے اس کے کچھ بات ٭ پس جس وقت کہ پہنچے وعدے اپنے کو پس بند کر رکھو اُن کو اچھی طر ح یا جدا کر دو ان کو سا تھ اچھی طر ح کے اور گوا ہ کر لو دو صاحب عدل کو آپس میں سے اور درست کر و گوا ہی و اسطے خدا کے یہ با ت نصیحت دیا جا تا ہے سا تھ اس کے جو کو ئی کہ ایمان لا وے ساتھ اللہ کے اور دن پچھلے کے اور جو کو ئی ڈرے اللہ سے کر یگا واسطے اُس کے راہ نکلنے کی مشکل سے “ (سورة الطلاق  65 : 2 )
سو رة الطلا ق کی ان پہلی دو آیات میں اللہ تعالی نے مختصر الفا ظ میں اور بڑی تفصیل کے سا تھ طلا ق دینے کا طریقہ بیا ن فر ما دیا ۔قر آن پاک کی تر تیب میں اللہ تعالیٰ کا یہ اندا ز بیان بھی پا یا گیا ہے کہ جو حکم پہلے لا گو ہو تا ہے وہ بعد میں لکھ دیا گیا اور جو حکم بعد میں لا گو ہو نا تھا وہ پہلے لکھ دیا گیا ۔ مثال کے طور پر سور ة البقرہ کی طلا ق سے متعلق آیا ت پر غورکر و ۔ آیت نمبر230میں طلا ق مغلطہ کی حدود بیا ن فر مائیں اور آیت نمبر 232میں طلاق با ئن کی حالانکہ ہو نا یہ چا ہے تھا کہ پہلے طلا ق با ئن کی حدود کا ذکر ہو تا اور بعد میں طلاق مغلطہ کا۔جیسے مکی اور مدنی سو رتوں کو ملا جلا کر لکھ دیا گیا حالا نکہ شان نزول کے لحا ظ سے مکی سور تیں پہلے آئیں ۔اسی طر ح ایک انداز بیان یہ بھی ہے قر آن پاک کی ایک آیت کے جب تک مختلف ٹکڑے نہ کیے جا ئیں قر آن پاک کی آیت کا صحیح مفہوم سمجھ میں نہ آئے گا ۔یہی مسئلہ سو رة الطلا ق کی دو سری آیت میں مو جود ہے ۔
آیت نمبر1 کے شرو ع میں یہ سمجھا یا جا رہا ہے کہ طلا ق کے شروع میں عدت کی مدت گذارنے کی حد ضرور آئے گی یعنی طلا ق موثر (رجعی )کا نمبر آئے گا نہ کہ مغلطہ وغیر ہ کا۔ پھر رجعت کے لیے عدت کی مدت کے آخری دنو ں میں یا تو رجعت کر تے ہو ئے رکھ لو یا رجعت نہ کر تے ہو ئے عزت و آبرو سے رخصت کر دو اور طلاق کو طلا ق با ئن کی حدمیں پہنچا دو ۔ اس بیا ن کے بعد فرمایا گیا کہ ” اور گوا ہ کر لو دو صاحب عدل کو آپس میں سے اور درست کر و گوا ہی و اسطے خدا کے “اصل میں یہ الفاظ اس وقت کیلئے ہیں کہ جب طلاق دینے والا طلا ق دینے کا ارادہ کر رہا ہے ۔
توجہ: بھلا جب طلا ق میں رجعت ہو چکی ہو یا طلا ق با ئن کی حد کو پہنچ چکی ہو تو اس وقت عدل کرنے والے کیا خا ک عدل کر یں گے ۔اے اللہ کے نیک بندو عدل کرنے والے تو اس وقت عدل کر یں گے جب طلا ق دینے والا طلا ق کا ارادہ ظا ہر کر رہا ہے ۔
اے اللہ والو اگر تمہیں سمجھ آئے تو سو رة الطلاق میں لفظ عدل کا ہو نا اسی با ت کی دلا لت کر رہا ہے کہ طلا ق کےلئے عدا لت لگے گی اور عدالت لگنے لگا نے کا جوا ز یہ ہے کہ طلاق دینے والا کہیں بلا وجہ یا معمولی وجہ پر تو طلاق نہیں دینا چا ہتا ۔پیچھے آپ یہ دلائل کے سا تھ پڑھ آئے ہیں کہ بلا وجہ طلا ق حرام ہے ۔شا ید طلا ق دینے والا جذبا ت میں حرام طلاق نہ دینے لگے ۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے طلا ق کیلئے عدالت لگا نے کا حکم دیا ہے ۔عدالت لگے گی تو عدل ہو گا ۔عدالت لگے گی تو گواہ عدالت میں گو اہی دیں گے ۔کیا گوا ہوں کو دیوارو ں کے سامنے گواہی دینی ہو تی ہے ؟ بس ا ن آیا ت میں عدل کا لفظ اور گوا ہ کا لفظ یہ واضح ثبوت فراہم کر رہا ہے کہ طلا ق کے لیے عدالت لگے گی ۔جب عدالت لگے گی تو اس میں قاضی (جج)بھی ضرور ہو گا ۔ ان آیات میں ایک نہیں بلکہ دو ججوں کا ہوناصادر فرمایا گیاہے ۔ توجہ کریں سورةالطلاق کے اس حصہ پر
اور گوا ہ کر لو دو صا حب عدل کو آپس میں سے اور درست کر و گوا ہی و اسطے خدا کے “ (سورة الطلاق 65 : 2 )
 ان آیات میں مخاطب طلاق دینے والے ہیں اور آیات کے درمیان میں ”و“ یعنی ”اور“آنے سے مخاطب بدل نہیں جاتا ۔اللہ تعالیٰ نے دو ججوں کو”گواہ دو صاحب عدل “ ًکہا۔یہ بھی اللہ تعالیٰ کا انداز بیان ہے اور کسی بھی معاملے کا ججوں سے بہتر گواہ اور کوئی نہیں ہوتا کہ وہ فریقین کے بیان اپنے سامنے اور اپنے کانوں سے سنتا ہے ۔ عام گواہ تو ایک طرف کا ہوتا ہے لیکن جج دونوں طرف کا گواہ ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دو ججوں کو دو گواہ فرمایا اور اس سے آگے جو یہ فرمایا ہے کہ ”درست کرو گواہی“ ًیہ گواہ جو فرمایا طلاق دینے والے کو فر مایا گیا ہے کہ وہ جو الزامات بیوی پر لگا کر طلاق دینا چاہ رہا ہے اس میں وہ الزامات سچ سچ بیان کرے اور الزامات ”گواہی“ ًلگانے میں جھوٹ کو شامل نہ کرے تاکہ وہ عدل کرنے والے جھوٹے الزامات کی وجہ سے طلاق دینے والے کے حق میں غلط فیصلہ نہ کر دیں اس لیے طلاق دینے والے پر زور دیاجا رہا ہے کہ درست گواہی دے ۔عدالت اس چیز کا نام نہیں کہ وہ یک طرفہ بیان سنے اور فیصلہ کر دے۔ عدالت کا فرض ہے کہ دوسرے فریق ”عورت“ کو عدالت میں بُلا کر صفائی کا موقع دے اور اگر چاہے تو وہ جج دوسرے لوگوں کی گواہی بھی سن سکتے ہے ۔
ان آیات کی تشریح سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ کسی بھی مسلمان سے طلاق دینے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ طلاق دینے کے لیے دو صاحب عدل کی عدالت کی ضرورت ہے۔ ان کی اجازت کے بغیر طلاق نہیں ہو گی اور جس قسم یا درجے کی طلاق ہو گی وہ بیان کر دیں گے کہ غیر موثر یا بائن وغیرہ۔
آئیے توجہ کریں قرآن پاک کی اس آیت پر بیان میاں بیوی کے جھگڑے کا ہے۔
 ” اور جو عو رتیں کہ تم ڈر تے ہو چڑھا ئی اُن کی سے پس نصیحت کر و اُنکو اور چھو ڑ دو اُن کو خو اب گا ہ کے اور ما رو ان کو پس اگر کہا ما نیں تمہا را پس مت ڈھو نڈو اوپر ان کے راہ اور تحقیق اللہ ہے بڑا بلند “ (سورة النساء 4 : 34)
اس آیت مبارکہ کے آخری حصہ کے الفاظ پر غور کریں
مت ڈھونڈو اُوپر اُن کے راہ“ الزام کی بات دو طرف جاتی ہے کہ میاں اپنی بیوی کو مارنے پیٹنے کے لیے بہانے تلاش نہ کرے اور یوں کہ میاں اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے بہانے تلاش نہ کرے ۔ اس آیت مبارکہ کے ان الفاظ سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ مارنے پیٹنے کے لیے بھی جواز کا ہونا ضروری ہے اور طلاق دینے کے لیے بھی جواز کا ہونا ضروری ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ بلاوجہ یا بلاجواز کسی کو مارنا پیٹنا گناہ ہے تو بلاوجہ یا بلا جواز طلاق دینا تو اور بھی بڑا گناہ ہو گا۔ اس آیت مبارکہ کے اور الفاظ ”پس کہا مانیں تمہارا “ مطلب یہ کہ اگر بیوی زمانہ حال میں تمہارا کہا مانتی ہے تو زمانہ ماضی کی باتوں کی وجہ سے بھی تم نہ اُس کو مار پیٹ سکتے ہو اور نہ ہی اُسے طلاق دے سکتے ہو۔ جیسے کسی عورت کو تنسیخ نکاح کے لیے عدالت جانا پڑتا ہے اسی طرح مرد کو بھی طلاق دینے کے لیے عدالت جا نا پڑے گا۔ طلاق کا فیصلہ عدالت کرے گی کہ طلاق دی جائے یا طلاق نہ دی جائے۔ تنسیخ نکاح کے لیے عورت کو بھی عدالت کو جواز بتلانا ضروری ہے اور طلاق دینے کے لیے مرد کو بھی عدالت کو جواز کا بتلانا ضروری ہے۔
خاص توجہ کہ کسی بھی مردکے لیے اپنی بیوی کو مارنے پیٹنے یا طلاق دینے کے لیے بہانے تلاش کرنا یا جواز کا تلاش کرنا کیوں ضروری ہے اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ میری اس حرکت پر ہمسائے، سسرال والے اور حکومت وقت ضرور پوچھے گی کہ تُوں نے یہ حرکت بلاوجہ کیوں کی لہٰذا معاشرے میں رہتے ہوئے جواب دینا ضروری ہے اور طلاق کا بہانہ یا جواز عدالت کے دو ججوں کے سامنے بیان کرنا ضروری ہے۔ اگر عدالت کے دو جج محسوس کریں کہ بہانہ یا جواز ایسا نہیں کہ جس کی وجہ سے طلاق دی جا سکے تو عدالت طلاق دینے والے کی خواہش کو رد کر سکتی ہے۔ اگر حکومت اسلامی نہ ہو تو یعنی طلاق کے لیے دو ججوں کی عدالت قائم نہیں کرتی اور ملک میں اسلامی قوانین سزا نافذ نہیں ہیں تو دستور کے مطابق طلاق دینے والا برادری یا قریب کے دو معزز آدمیوں کے سامنے حقیقت حال سُنائے اور وہ دو معزز آدمی ذاتی تحقیق کی بنا پر یا سوچ بچار کے بعد طلاق دینے کی اجازت دے دیں تو وہ شخص طلاق دے سکتا ہے۔ طلاق کی اقسام ترتیب کے ساتھ لکھ دی گئیں ہیں۔
ایسا شخص کہ جس کے پاس ایسے جواز ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حقدار بنتا ہوا مثلاً بیوی کا ناراضگی کی وجہ سے ایک سال تک میکے میں بیٹھے رہنا اور خاوند کے گھر نہ آنا یا مسلسل نافرمانی کرنا اور دیگر بہت سی باتیں بھی۔ ایسا شخص اگر اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیتا تو وہ شخص ضرور پریشان اور ذلیل و خوار ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کی مرضی تو یوں ہے کہ جہاں تک ہو سکے میاں بیوی میں جدائی نہ ہو۔
انجیل مقدس کے الفاظ
متّی باب 5: 32۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرامکاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اُس سے زنا کراتا ہے اور جو کوئی اُس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے (نکاح کرتا ہے )وہ زنا کرتا ہے۔
انجیل مقدس کے ان الفاظ سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اے طلاق دینے والے کیا تجھے یہ بھی معلوم ہے کہ جو طلاق تو دے رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول بھی ہے یا نہیں ۔اگر وہ طلاق اللہ تعا لیٰ کے ہاں قبول نہیں تو پھر وہ طلاق یافتہ عورت دوسرا نکاح کرتی ہے تو وہ زنا ہو گا ۔تو پھر اب طلاق دینے والے کو کیسے پتا چلے گا کہ وہ حق پر ہے یا ناحق ہے۔کسی بھی انسان کے دل میں یہ خلش باقی رہتی لیکن اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر کرم کرتے ہوئے قرآن پاک میں مکمل تفصیل دی کہ طلاق دینے کا بوجھ طلاق دینے والے کے سر سے اتار کر دو صاحب عدل عدالت کرنے والوں پر ڈال دیا یہ کہ وہ فیصلہ کریں کہ طلاق دینے والا حق پر ہے یا نہیں۔قرآن پاک میں طلاق دینے کے طریقے کا شان نزول کی اصل وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ بائبل میں طلاق دینے کا طریقہ واضح طور پر نہیں ملتا۔

سوال: آپ نے طلاق پر تحریر لکھ دی اور اپنی مرضی سے قرآنی آیت کی ترتیب کو آگے پیچھے کر دیا کہ بعد کی آیت کا عمل دخل پہلے ہو گا اور پہلے آنے والی آیت کا عمل دخل بعد میں، جیسے کہ آیت نمبر 230:2کا عمل دخل بعد میں اور آیت نمبر 232:2کا پہلے اسی طرح القرآن کی ایک ہی آیت نمبر 2:65کے آخری حصے کا عمل دخل پہلے بنا دیا اور پہلے حصے کا بعد میں۔ یوں بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ اپنی مرضی سے آیتوں کی ترتیب کو آگے پیچھے کر دیں ؟
جواب: قرآن پاک میں فکر کرنے میں یہ بات بھی آتی ہے کہ عقل لڑائی جائے کہ کس آیت کا عمل دخل پہلے آئے گا اور کس آیت کا بعد میں۔ توجہ کریں قرآن پاک کے ان الفاظ کی طرف کہ سورة النساءمیں کئی بار آئے
 ” پیچھے وصیت کے کہ وصیت کر جاوے ساتھ اس کے یا قرض کے “ (سورة النساء  4 : 11 )
اس آیت میں وصیت کا لفظ پہلے ہے اور قرض کا بعد میں اگر فوت ہونے والے نے میراث کی وصیت بھی کر رکھی ہو اور اُس کے ذمے اتنا زیادہ قرض ہو کہ ساری میراث بھی قرض میں دے دی جائے تو قرض اترے پھر کیا کرو گے ؟ قرض دینے کا حق پہلے بنے گا یا وصیت پر عمل کرنے کا؟ اس معاملہ میں تفسیر ابن کثیر میں آیت نمبر 12:4کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے ” ترتیب اس طرح ہے ، پہلے قرض ادا کیاجائے پھر وصیت پور ی کی جائے پھر ورثہ تقسیم ہو، یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام علمائے امت کا اجماع ہے “ تو ثابت ہو کہ ترتیب پر غورو فکر کے بعد الفاظ یا آیات آگے پیچھے کی جاسکتی ہیں ۔

طلاق میں دوججوں کے بارے میں دلائل
اے لو گو جو ایمان لا ئے ہو مت ما ر ڈالو شکا رکو اور تم احرام میں ہو اور جو کوئی مار ڈالے اس کو تم میں سے جا ن کر پس بدلا( بدلہ) اس کاہے مانند اس کی جو ما را ہے جان کے جانورو ں سے حکم کر یں ساتھ اسکے دو صاحب عدالت تم میں سے قر بانی پہنچنے والی کعبہ کی یا کفا رہ کھلا نا مسکینوں کایا برابر اس کے روزے توکہ چکھے وبال کا م اپنے کا“ (سورة المائدة  5 : 95 )
1۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے احرا م کی حالت میں شکا ر کر نے والے کیلئے دو جج بٹھلا ئے کہ وہ اس آدمی کی حیثیت دیکھتے ہو ئے خانہ کعبہ میں کتنے جا نو ر ذبح کر ے یا غریب ہے تو کتنے مسکینو ں کو کھا نا کھلائے یا بالکل غریب ہے تو کتنے رو زے رکھنے کی سز ادیں ۔
تو جہ: احرام میں شکا ر کے معا ملے پر جب دو صا حب عدل بٹھلائے جا سکتے ہیں تو طلا ق کا معا ملہ احرام میں شکا ر کے معاملے سے بہت زیا دہ حسا س ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے طلا ق کے معاملہ میں دو جج بٹھائے۔
2۔ عام معا ملے میں اللہ تعالیٰ نے دو گوا ہ رکھنے بتلا ئے ہیں ۔دو مر د یا ایک مر د اور دو عو رتیں لیکن جب عورتوں کا معا ملہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے چا ر گواہ طلب کر نے کو کہا یعنی گواہوں کی تعداد دو گنی کر دی ۔
پس گو اہ ما نگو اوپر اُن کے چا ر گواہ “ (سورة النساء 4 : 15 )
 ”پھر نہیں لا تے چا ر شا ہد “ (سورة النور 24 : 4 )
تو جہ: جب عو رتوں کے نا زک معا ملے میں اللہ تعالیٰ نے گو اہو ں کی تعداد کو دگنا کر دیا تو یہ لا زمی ہو ا کہ جج کی تعدا د بھی دگنی کر دی جا ئے اور کی ۔سو رة الطلا ق میں فر ما یا
دو صا حب عدل کو “ (سورة الطلاق  65 : 2 )
دو ججو ں کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے واقعات میں یہ بات واضح طورپر نظر آتی ہے کہ صحا بہ اکر ام سب سے پہلا جج حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چن لیتے تھے اور انہی کے فیصلے کے مطا بق عمل کر تے تھے کہ پھر کسی دوسرے سے مشورہ اور عدل کر انے کی ضرو رت بھی با قی نہ تھی ۔

واقعہ نمبر1
یہ کہ حضرت ابو ایو ب انصا ری رضی اللہ عنہ حضو رپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پا س آئے اور کہا کہ میں اپنی بیوی کو طلا ق دینا چا ہتا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وجہ دریا فت کی اور فر ما یا کہ مجھے اس طلاق میں گناہ نظر آتا ہے ۔لہٰذاحضرت ابو ایو ب رضی اللہ عنہ طلا ق دینے سے باز رہے ۔
اس وا قعہ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ بلا وجہ طلا ق دینا جا ئز ہو تا تو وہ حضو رپا ک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشورہ کر نے کیو ں آتے گھر بیٹھے ہی طلا ق دے دیتے ۔لیکن ایسا نہیں ہے ۔بلا وجہ یا معمولی وجہ پر طلا ق دینا گنا ہ اور حرا م ہے ۔

واقعہ نمبر2
یہ کہ ایک صحا بی حضر ت ہلا ل رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پا س آئے او رفر ما یا کہ میں اپنی بیو ی کو طلاق دینا چا ہتا ہو ں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وجہ دریا فت کی تو انہو ں نے فر ما یا کہ جو بچہ میر ی بیو ی کے پیٹ میں ہے وہ میرا نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی بیو ی کو بلا یا (فریقین کو بلا نا )پھر اُس مر د حضرت ہلا ل رضی اللہ عنہ سے کہا کہ قرآن پاک کی سور ة النو ر کی آیت نمبر 6،7کے مطا بق چا ربا رقسم کھا کر پانچویں بار بھی قسم کھا ئے ۔وہ شخص پانچوں قسمیں کھا گیا ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورت کی طر ف متوجہ ہو ئے کہ اِس تیر ے خا وند نے اگر جھو ٹی قسمیں کھا ئی ہیں تو تُوبھی سو رة النو رکی آیت نمبر 8،9 کے مطابق قسم کھا سکتی ہے اور اگر قسم نہیں کھا تی تو سنگسار ہونے کوتیا ر ہو۔ وہ عورت بھی سو رة النو ر کے مطا بق چا ربا رکے بعد پانچویں بار بھی قسم کھا گئی ۔پھر حضو رپا ک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ہلا ل رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیو ں کہ تُو قسمیں کھا چکا ہے کہ یہ بچہ تیرا نہیں اس لیے اب تجھے اجا زت ہے کہ تُو اپنی بیو ی کو طلا ق دے دے ۔پھر حضورپاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لو گو ں کی طر ف متوجہ ہو کر کہاکہ آج کے بعد اس عورت کے پیٹ میں بچے کو کو ئی اس شخص حضر ت ہلا ل کی نسبت نہ دے ۔یہ کہ یہ قسمیں کھا چکا ہے کہ بچہ میر انہیں اور آج کے بعد کو ئی بھی شخص اس بچہ کو حرام کا نہ کہے کیوں کہ یہ عورت بھی قر آن پاک کے مطابق قسمیں کھا چکی ہے ۔وہ بچہ پیدا ہونے کے بعد زیا د بن امیہ (زیا د اپنی ماں کا ) رضی اللہ عنہ کے نا م سے پکا را گیا اور بڑا ہوکر مصر کا والی بنا۔

واقعہ نمبر3
جب منا فقوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محتر مہ حضر ت اماں عا ئشہ بی بی رضی اللہ عنہا پر تہمت لگا کر حضور پا ک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ دیا کہ وہ حضرت عائشہ بی بی رضی اللہ عنہا کو طلا ق دے دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے دو صا حب عدل کے فیصلے اور مشورے کے مطا بق کئی معتبر آدمیوں سے مشورہ لیا ۔لیکن اُنہو ں نے کہا کہ ہم آپ کی زوجہ محترمہ حضر ت عائشہ بی بی رضی اللہ عنہا میں کو ئی عیب نہیں پا تے تو حضو ر پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طلاق دینے سے باز رہے اور طلا ق نہ دی یہاں تک کہ جبرا ئیل امین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی پاکیزگی کے بارے میں وحی لے کر آئے جو سورة النو ر میں ہے ۔

اب آئیے سورة الطلاق کی پہلی آیت کے بارے میں غور و فکر کر تے ہیں ۔
اے نبی جس وقت طلا ق دو تم عو رتوں کو پس طلا ق دو تم اُن کو وقت عدت اُن کی کے اور گنو تم عدت کو اور ڈرو اللہ پر وردگا راپنے سے مت نکا ل دوان کو گھروں اُن کے سے اور نہ نکل جا ویں مگر یہ کہ کر یں بے حیا ئی ظا ہر اور یہ ہیں حدیں اللہ کی اور جو کو ئی کہ نکل جا وے حدوں اللہ کی سے پس تحقیق ظلم کیا اس نے اوپر جان اپنی کے نہیں جانتا تو شاید کہ اللہ پیدا کر دے پیچھے اس کے کچھ بات ۔ “ (سورة الطلاق  65 : 1)
آیت کے ان الفا ظ پر غو رکرو کہ عو رت کے با رے میں فر ما یا ”مت نکا ل دوان کو گھروں اُن کے سے اور نہ نکل جا ویں“ عدت کی مدت میں خا وند کے گھرکو اس عو رت کا گھر کہا گیا کہ نہ ان کو گھر سے نکا ل اور نہ ہی وہ نکل جا ویں۔ عدت کی مدت میں عو رت کو خا وند کے گھر رکھنے کی اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ایک خاص حکمت ہے ۔
عد ت کی مدت میں عو رت کے با رے میں تو حکم ہو گیا کہ وہ خا وند کے گھر میں رہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ خا وند عدت کی مد ت میں گھر سے بھا گ جائے اور گھر میں داخل نہ ہو ۔ نہیں نہیں! جہا ں عو رت پر گھر میں رہنے کی پا بندی لگا ئی گئی ہے وہا ں مر د پر بھی پا بندی لگا ئی گئی ہے کہ وہ اپنے گھر میں اسی طر ح آئے جائے جس طرح پہلے آتا جا تا تھا ۔
(نو ٹ: یہ کہ اس بندہ نے ایک تحریر عنوان ” قر آ ن پاک کا سمجھنا “لکھی ہے ۔جس میں لکھا ہے کہ قرآن پاک کی کسی بھی آیت کی تصویر کے دو سرے رخ اور مختلف زا ویو ں پر نگاہ رکھنا ضروری ہے اس لیے طلا ق کے معاملے میں بھی دھیا ن رکھا جا رہا ہے ۔)
وہ میاں بیو ی گھر میں پہلے کی طر ح رہے اور بیوی اسی طر ح گھر کے کا م کا ج کر ے روٹی سالن پکا کر اپنے میاں کے سامنے رکھے اور زبان سے روٹی کھا نے کو کہے اور پانی دے ۔مر د بھی اپنی زبان سے روٹی سالن مانگے ۔جیسے پہلے گھر میں آنکھیں ملتی تھیں اب بھی ملیں لیکن طلا ق موثر کی حد کے مطا بق ہم بستری نہیں کر سکتے ۔ایسے حالا ت رکھو گے تو اللہ تعالیٰ قر آن کے مطا بق ”شا ید کہ اللہ پیدا کر دے پیچھے اس کے کچھ با ت “یعنی میاں بیو ی کے دل میں محبت ڈال دے اور میاں بیوی کی طر ف رجعت کا اعلا ن کر دے ۔
یہا ں ایک اور با ت سا منے آتی ہے کہ جب طلا ق کے بعد گھر میں رہنے کی پابندی لگا ئی گئی ہے تویہ بھی لازم ہو جا تا ہے کہ میا ں بیو ی طلا ق سے پہلے بھی تقریباًتین ماہ اکھٹے رہیں ۔کہیں ایسا تو نہیں کہ بیو ی کی غیر مو جو دگی میں کسی نے خا وند کو بیو ی کی چغلیا ں اور بہتان لگا کر خاوند کو طلاق دینے پر اکسا یا ہو ۔وہ قریب رہیں گے تو بیوی اپنے بارے میں خاوند کے سامنے غلط فہمیا ں دور کر سکے گی ۔دوسرے شہر میں ڈاک کے ذریعے طلا ق بھیج دے تو وہ طلا ق بالکل کہلا ئے گی۔ ” اللہ کرے گا واسطے اُس کے راہ نکلنے “ وہ یوں ہو گا کہ اللہ کے حکم سے وہ عورت خلع ما نگ لے اور مر د کے کا م آسان ہو جا ئے گا ۔
عدت کی مدت میں مرد کا جو رویہ عورت کے ساتھ جو ہونا چاہیے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یوں فرمایا ہے
رکھو ان کو جس طرح رہتے ہو تم مقدور اپنے سے اور مت ایذا دو ان کو تو کہ تنگی کرو تم اوپر ان کے اور اگر ہوویں حمل و الیاں پس خرچ کرو اوپر اُن کے یہاں تک کہ رکھیں حمل اپنا پس اگر دودھ پلاویں تمہارے کہنے سے پس دو تم اُن کو مزدوری اُن کی اور موافقت رکھو آپس میں ساتھ اچھی طرح کے اور اگر ایک دوسرے سے تنگی کرو تم پس دودھ پلاویں گی اس کو اور “ (سورة الطلاق  65 : 6 )
توجہ: فرمایا گیا کہ” تنگی کرو تم پس دودھ پلاویں گی اس کو اور “ مطلب یہ کہ بچہ رکھنے کا حق باپ کا ہے خواہ بچہ چند دن کا ہو ۔ ماں کا تعلق ختم ہو جاتا ہے اور یہ کہ جب بچے کی ماں کو دودھ پلانے کی مزدوری دی جارہی ہے اس سے ثابت ہوا کہ بچے پر ماں کا کوئی حق نہیں ۔جسے بچے کو دودھ پلانے کی مزدوری دی جارہی ہے اُس مزدور کو جب چاہے اُس کے مزدوری کے کام سے فارغ کیا جاسکتا ہے خوا ہ بچے کی حقیقی ماں ہو ۔ اگر اس طریقے پر عمل ہو تو کوئی عورت طلاق کا مطالبہ نہ کرے گی ۔

سوال : سننے میں تو یوں آتا ہے کہ طلاق کی صورت میں بچہ ماں کے پاس سات سال تک رہے گا؟
جواب: آپ کا سوال پاکستان کے قانون کے مطابق ہے یہ قانون انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں ۔ اکثر قانون کا احکام کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔جیسے دین اسلام میں چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے لیکن ہمارے قانون کے مطابق اس پر عمل نہیں ہو تا ۔ یہ بند ہ جو تحریر لکھ رہا ہے وہ دین اسلام سے متعلق لکھ رہا ہے توجہ کریں آیت مبارکہ کے ترجمے کی طرف ”اور اگر ایک دوسرے سے تنگی کرو تم پس دودھ پلاویں گی اس کو اور “ اگر باپ محسوس کر لے کہ ماں بہت جھگڑا لو ہے مجھے پریشان کرے گی یا اُس پر بد چلن ہونے کا شبہ پڑتا ہو کہ جس کی وجہ سے طلاق دی ہے تو باپ کو اختیا رہے کہ وہ اپنے بچے کو کسی اور عورت سے دودھ پلوائے مزدوری پر یا جیسے کیسے ۔ طلا ق کی صورت میں بچے باپ کے کہلائیں گے اور ماں کا اُن سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ مثا ل کے طور پر اگر نکاح شدہ جوڑے میں خا وند کی ذات راجپوت ہے اور عورت کی کوئی دوسری یا آرائیں تو اولاد باپ کے نسب سے کہلائے گی اور اولادرا جپوت کہلائے گی اور کہلاتی ہے ۔ عورت پٹھانی ہے اور اس کا خاوندکا سید قوم سے تعلق ہے تو اولاد سید کہلائے گی ۔ مطلب یہ کہ نسب باپ کا کہلائے گا ۔یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے وراثت کا زیادہ حق دادکوں کی جائیداد میں رکھا ہے نہ کہ نانکوں کی جائیداد میں، یہ بھی ایک ثبوت ہے کہ بچوں پر دادکوں ( باپ ) کا زیادہ حق ہے ۔آئیے قرآن پاک کی طرف کہ فرمایا گیا
 ” بی بیاں تمہاری کھیتیاں ہیں واسطے تمہار ے پس جا کھیت اپنے میں جس طرح چاہو تم “ (سورة البقرة 2 : 223 )
اس آیت میں عورت کو کھیتی کہا گیا اور اُس کے خاوند کو مالک بنا دیا گیا۔مالک نے کھیتی میں بیج ڈالا وہ بیج جب بڑھا پھلا پھولا اور پھل بنا تو اُس پھل پر مالک کا حق ہوتا ہے اور کھیتی زمین کو کبھی یہ حق نہیں ہو تا کہ کھیت مالک کو یہ کہے کہ یہ پھل میر ا ہے اور مجھے دو ۔
 مندرجہ بالا تحریر سے ثابت ہو تا ہے کہ اولاد پر باپ کا حق زیادہ ہے ۔
         
نکاح کی مضبوطی
آئیے القرآن سو رة النسا کی آیت نمبر 21 کے تر جمہ پر غور کر یں یہ حق مہر کے سے متعلق ہے ۔
اور کیو نکر لو گے اس کو اور تحقیق ملے ہیں بعضے تمہا رے طرف بعض کی اور لیا ہے انہوں نے تم سے قول گا ڑھا “ (سورة النساء 4 : 21 )
عر بی زبان میں سو رة النسا کی آیت نمبر21کے آخری الفا ظمِّيثَاقًا غَلِيظًاکے طور پر آئے کہ جس کا ترجمہ” قول گا ڑھا “اور معا ہدہ مضبوط کیا گیا ۔یہ حق مہر کا معا ملہ نکاح کی شرائط میں کی ایک شق ہے اس لیے اصل نکا ح کے معاہدہ کومِّيثَاقًا غَلِيظًا کہا گیا ہے ۔
تو جہ: اگر نکا ح کے معا ہدے کو صر ف”میثا ق “کہہ دیا جا تا تو کہہ سکتے تھے کہ یہ عا م معا ہدہ ہے اور کسی بھی وقت تو ڑا جا سکتا ہے یا صر ف ایک دفعہ طلا ق کہنے سے ٹو ٹ جائے گا یا تو ڑا جا سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ
مِّيثَاقًا غَلِيظًاہے ۔ مضبو ط معا ہدہ کہ یہ بلا وجہ توڑا نہیں جا سکتا اور ایک دو با ر طلا ق کہنے سے بھی اس معاہدہ مضبوط مِّيثَاقًا غَلِيظًا پر اثر نہیں پڑتا ۔مگر ہا ں تین طلا ق کہنے سے اس پر اثر پڑ جا تا ہے ۔یہ
مِّيثَاقًا غَلِيظًاکے الفا ظ ثابت کر رہے ہیں کہ نکا ح کا معا ہدہ بہت مضبو ط معا ہدہ ہے ۔
انجیل مقدس کے الفا ظ
 ”رومیوں :باب 7:2۔چنانچہ جس عورت کا شوہر موجود ہے وہ شریعت کے موافق اپنے شوہر کی زندگی تک اُس کے بند میں ہے لیکن اگر شوہر مرگیا تو وہ شوہر کی شریعت سے چھوٹ گئی۔
انجیل مقدس کے الفا ظ
 ”متّی: باب 19:3۔ اور فریسی اُسے آزمانے کو اُس کے پاس آئے اور کہنے لگے کیا ہر ایک سبب سے اپنی بیوی کو چھوڑ دینا روا ہے؟ 4۔ اُ س نے جواب میں کہا کیا تم نے نہیں پڑھا کہ جس نے اُنہیں بنایا اُس نے ابتدا ہی سے اُنہیں مرد اور عورت بنا کر کہا کہ۔5۔ اس سبب سے مرد باپ سے اور ماں سے جدا ہوکر اپنی بیوی کے ساتھ رہے گا اور وہ دونوں ایک جسم ہوں گے؟ 6۔ پس وہ دو نہیں بلکہ ایک جسم ہیں۔ اِس لئے جسے خدا نے جوڑا ہے اُسے آدمی جدا نہ کرے۔ 7۔ اُنہوں نے اُس سے کہا پھر موسٰی نے کیوں حکم دیا ہے کہ طلاق نامہ دے کر چھوڑ دی جائے؟ 8۔ اُس نے اُن سے کہا کہ موسٰی نے تمہاری سخت دِلی کے سبب سے تم کو اپنی بیویوں کو چھوڑ دینے کی اِجازت دی مگر اِبتدا سے ایسا نہ تھا۔ 9۔اور میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے اور دوسری سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے اور جو کوئی چھوڑی ہوئی سے بیاہ(نکاح) کر لے وہ بھی زنا کرتا ہے۔ 10۔ شاگردوں نے اُس سے کہا کہ اگر مرد کا بیوی کے ساتھ ایسا ہی حال ہے تو بیاہ کرنا ہی اچھا نہیں۔11۔ اُس نے اُن سے کہا کہ سب اس بات کو قبول نہیں کرسکتے مگر وہی جن کو یہ قدرت دی گئی ہے۔ 12۔ کیونکہ بعض خوجے ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ ہی سے ایسے پیدا نہیں ہوئے اور بعض خوجے ایسے ہیں جن کو آدمیوں نے خوجہ بنایا اور بعض خوجے ایسے ہیں جنہوں نے آسمان کی بادشاہی کے لئے اپنے آپ کو خوجہ بنایا۔ جوقبول کر سکتا ہے وہ قبول کرے۔
آخر ی آیت پر غو رکر یں کہ” جو قبول کر سکتا ہے وہ قبول کرے“ یعنی نکا ح وہ آدمی کر ے جوعورت کے تمام حقوق پو رے کر ے اور سا ری زندگی اس عو رت کے ساتھ نبا ہ کرے۔
مندرجہ بالاتحریر سے یہ با ت واضح طور پر سامنے آتی ہے ۔
1۔ نکا ح کا معا ہد ہ ایک مضبو ط معاہدہ ہے اورساری زندگی کا ساتھ ہے یہ بات قرآن پاک سے ایک اور طرح بھی ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نکاح کے بعد میاں بیوی کا آپس میں وراثت کا حق رکھ دیا کہ میاں کے فوت ہونے پر بیوی کا وراثت میں حق اور بیوی کے فوت ہونے پر خاوند (میاں ) کے لیے وراثت میں حق ۔ یہ وراثت میں حق بھی ثابت کر رہا ہے کہ نکاح کا بندھن سار ی زندگی کا ساتھ ہے ۔
2۔ یہ کہ نکا ح سے میاں بیوی کا ساری زندگی کا سا تھ بند ھ جا تا ہے ۔
3۔ یہ کہ نکا ح کے وقت طلا ق کا تصور بھی مو جو دنہیں ہو تا ۔

بلاوجہ یاجھوٹے الزاما ت کے ذریعے نکاح توڑنے کی سزا کا اندازہ
توجہ سو رة النسا ءکی آیت نمبر154کا تر جمہ
اور کہا ہم نے ان کو مت تعدی کر و بیچ ہفتے کے اور لیا ہم نے اُن سے قول گا ڑھا “( سورة النساء  4 : 154 )
یا د رہے کہ اللہ تعالیٰ نے نکاح کو بھی قول گا ڑھا یعنی معاہدہ مضبو ط ۔عر بی میں دو نو ں جگہ لفظ  مِّيثَاقًا غَلِيظًا آیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے یہو د سے ایک مِّيثَاقًا غَلِيظًا ا ن کا امتحان لینے کیلئے یوں کیا تھا کہ وہ ہفتے کے دن مچھلی کا شکا ر نہ کھیلیں لیکن انہو ں نے حیلو ں بہا نوں سے وہ مِّيثَاقًا غَلِيظًا  تو ڑ دیا جس کی سزا کے طو ر پر ان کو بندر بنا دیا گیا ۔
توجہ کر یں تر جمہ سو رة البقرہ آیت نمبر 65، 66
اور البتہ تحقیق جا نتے ہو تم اُن لو گو ں کوکہ حد سے نکل گئے تم میں سے بیچ ہفتے کے پس کہا ہم نے اُن کو ہو جاؤ تم بندر ذلیل٭ پس کیا ہم نے اس قصے کو بندش واسطے اُنکے جو آگے اُنکے تھے اور جو پیچھے اُنکے تھے اور نصیحت واسطے پر ہیز گا روں کے ۔“(سورة البقرة  2 : 65، 66 )
ان آیا ت کے لکھنے سے سمجھا نا مقصو د یہ ہے کہ ان لو گو ں سے مچھلی کا شکا ر ہفتے کے دن نہ کر نے کے بارے میں ثَاقًا غَلِيظًا لیا گیا تھا جو کہ ایک امتحان تھا ۔اس طر ح قیامت تک کے لو گوں سے ثَاقًا غَلِيظًا کا امتحان نکا ح کی صو رت میں لیا جا رہا ہے اور لیا جا تا رہے گا ۔یہود کو اس ثَاقًا غَلِيظًا  تو ڑنے کے جر م میں بندر بنا دیا گیا حالانکہ وہ صرف مچھلی کے شکا ر کھیلنے کے بار ے میں تھا ۔اس امتحان میں کسی کی دل شکنی نہ ہوتی تھی اور یہ ثَاقًا غَلِيظًا کا امتحان ہے جس کے تو ڑنے سے انسا ن اور انسا نیت کی دل شکنی ہوتی ہے ۔ اس ثَاقًا غَلِيظًا کو بلا وجہ تو ڑنے کے جر م میں تو اُس عذا ب سے بھی بڑے عذا ب کا حق بنتا ہے ۔اس لیے فر ما یا گیا”اور نصیحت واسطے پر ہیز گا روں کے“۔

نکاح کا فسخ کرانا(خلع )اور طلاق کا فسخ کرانا
تر جمہ سورة البقرہ آیت نمبر 229کا حصہ ۔
پس اگر ڈرو تم یہ کہ نہ قا ئم رکھیں گے حدیں اللہ کی کو پس نہیں گنا ہ اوپر ان دونوں کے بیچ اس چیز کے کہ بدلا دے عو رت سا تھ اس کے حدیں اللہ کی پس مت گذرو اُن سے “ (سورة البقرة 2 : 229 )
اس آیت میں یہ بتا یا جا رہا ہے کہ نہ قائم رکھیں حدیں اللہ کی کو ۔میاں بیو ی کیلئے اللہ تعالیٰ کی حدیں یہ ہیں کہ ہنسی خو شی رہیں اور عورت مر د کی فر ما نبر دار رہے لیکن اگر وہ اس طر ح زندگی بسر نہیں کر رہے اور ان کے درمیان روزانہ لڑائی جھگڑا رہتا ہے اور عورت محسو س کر تی ہے کہ اس کا خا وند اس پر ظلم کر رہا ہے تو اس آیت میں عورت کو اجا زت دی ہے کہ وہ حق مہر میں سے کچھ واپس کر تے ہو ئے طلا ق کا مطا لبہ کر دے اس کو خلع کہتے ہیں کہ جس کی اجا زت دین اسلا م میں ہے ۔اس آیت کی تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو یو ں ہے کہ اگر کو ئی خاوند بلاوجہ طلا ق دے کر اپنی بیوی کو گھر سے نکا ل دیتا ہے توبھی عو رت عدالت کے ذریعے اس طلا ق کو طلا ق با طل قرار دلوا کر اپنے میاں کے سا تھ نکا ح کی حیثیت سے ازدواجی زندگی بسر کر سکتی ہے۔ اس با رے میں دو واقعے یا دلائل لکھے جا تے ہیں ۔
         
واقعہ(دلیل)نمبر1
حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور مبارک میں ایک عورت آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اورکہنے لگی میر ا خاوند اب جبکہ مر نے کے قریب ہے اس نے مجھے صر ف اس لیے طلاق دے دی ہے کہ میں اس کے مر نے کے بعد اس کی جائیدا ر میں سے حصہ نہ لے سکوں او رتما م جا ئیداد وراثت کے طو ر پر اسکے بیٹوں کے پاس رہے ورنہ میر ا کو ئی قصور نہیں جس کی وجہ سے مجھے طلا ق دی جا تی میں نے اپنی تما م عمر اس کی خدمت بھی کی (شا ید اس کے سو تیلے بیٹوں کی ماں ہو گی )میر ے ساتھ انصا ف کریں ۔حضر ت عمر رضی اللہ عنہ اس آدمی کے پاس گئے اور اسے واضح طور پر حکم فر مایا کہ تیری اس دی ہو ئی طلا ق کو میں صحیح تسلیم نہیں کر تا اور تیر ے مر نے کے بعد تیری جا ئیدا د میں سے اس عو رت کا حصہ ضرور دلواؤں گا ۔ مجھے یقین ہے کہ اب تُو چند دن میں فو ت ہو جا ئے گا۔ مطلب یہ کہ حاکم وقت نے اس طلا ق کو باطل قر ار دیتے ہو ئے نکا ح کو بر قرا ر رکھا ۔

واقعہ(دلیل)نمبر2
توریت کے الفاظ
اِستِشنا: باب22:13۔اگر کوئی مرد کسی عورت کو بیاہے (نکاح کرے)اور اُسکے پاس جائے اور بعد اُسکے اُس سے نفرت کر کے۔14۔شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہے اور اُسے بدنام کرنے کے لیے یہ دعویٰ کرے کہ میں نے اِس عورت سے بیاہ کیا اور جب میں اُسکے پاس گیا تو میں نے کنوارے پن کے نشان اُس میں نہیں پائے۔15۔تب اُس لڑکی کا باپ اور اُس کی ماں اُس لڑکی کے کنوارے پن کے نشانوں کو اُس شہر کے پھاٹک پر بزرگوں کے پاس لے جائیں۔16۔اور اُس لڑکی کا باپ بزرگوں سے کہے کہ میں نے اپنی بیٹی اِس شخص کو بیاہ دی پر یہ اُس سے نفرت رکھتا ہے۔17۔اور شرمناک باتیں اُس کے حق میں کہتا اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے تیری بیٹی میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے حالانکہ میری بیٹی کے کنوارے پن کے نشان یہ موجود ہیں۔ پھر وہ اُس چادر کو شہر کے بزرگوں کے آگے پھیلا دیں۔18۔تب شہر کے بزرگ اُس شخص کو پکڑ کر اُسے کوڑے لگائیں۔19۔اور اُس سے چاندی کی سو مثقال جرمانہ لیکر اُس لڑکی کے باپ کو دیں اس لیے کہ اُس نے ایک اسرائیلی کنواری کو بدنام کیا اور وہ اُس کی بیوی بنی رہے اور وہ زندگی بھر اُسکو طلاق نہ دینے پائے۔
مندرجہ با لا تحریر میں یہ با ت واضح ہو جا تی ہے کہ
1۔ عورت کو اگر اس کا خا وند بلا وجہ تنگ کر ے تو وہ نکا ح فسخ کراسکتی ہے۔
2۔ اور یہ عورت کو اس کا خاوند بلاوجہ طلاق دیتا ہے اور گھر سے نکال دے تو عدالت کے ذریعے طلاق فسخ کرا کے نکاح بحال کرا سکتی ہے ۔
3۔ یہ کہ بلا وجہ طلا ق نہیں دی جا سکتی اور معمولی وجہ پر بھی کہ معمولی وجہ طلا ق کے پہلے کے مراحل میں دور کی جا سکتی ہے ۔
4۔ یہ کہ اگر کو ئی شخص بلا وجہ طلا ق دے اور اس پر سا ری زندگی طلا ق نہ دینے کی پابندی لگا ئی جا سکتی ہے۔
قر آن پاک میں بار بار توریت اور انجیل کا ذکر آیا ہے کہ ان میں نور و ہدایت ہے ۔ترجمہ۔القرآن سورةالمائدہ آیت نمبر44۔
تحقیق اتاری ہم نے توریت بیچ اس کے ہدایت ہے اور روشنی ہے “ (سورة المائدة 5 : 44 )
دی ہم نے اس کوانجیل بیچ اس کے ہدایت اور روشنی ہے “(سورة المائدة 5 : 46 )
 ”اور چا ہیے کہ حکم کر یں اہل انجیل بیچ ساتھ اس چیز کے کہ اتاری ہے اللہ نے بیچ اسکے اور جو کو ئی نہ حکم کر ے سا تھ اس چیز کے کہ اُتاری ہے اللہ نے پس یہ لوگ وہی ہے فاسق“ (سورة المائدة 5 : 47 )
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی اُتاری ہوئی چیز کے مطابق حکم کر و ۔ توریت ،انجیل مقدس اور قرآن پاک یہ سب کتابیں اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی ہیں لہٰذا ہمیں ان تما م کتا بوں سے استفادہ کر نا ہو گا ۔
نو ٹ: بائبل کے ٍاحکا مات سے اس صورت میں استفادہ حاصل کیا جا ئے گا کہ بائبل کے احکامات قر آن مجید کے احکا مات کے تابع ہوں اور دین اسلا م میں کسی کی بھی ظلم وزیا دتی کے خلا ف عدالت کی طر ف رجوع کیا جا سکتا ہے خواہ خا وند ہو یا بیوی ۔

حلالہ کے بارے میں بحث
حلالہ کارائج مفہوم
 حلالہ کا مفہو م یہ ہے کہ طلا ق مغلطہ کے بعد عورت کا کسی دوسر ے مر د سے دو تین دن کے لیے نکا ح کرانا اور پھر طلا ق دلوانا کہ یہ طلا ق دلوانا پہلے طے کر لیا جا تا ہے۔
         
حلالہ حلال ہے یا حرام ہے؟
بعض علما ءحلا لہ کو حلا ل اور بعض علما ءحلا لہ کو حرام قرا ر دیتے ہیں۔ آئیے اس بارے میں قر آن پاک سے رہنمائی حاصل کر تے ہیں ۔
یہاں تک کہ نکاح کرے اور خصم سے “ (سورة البقرة  2 : 230 )
عر بی میں بھی لفظ تَنكِحَ ”وہ نکا ح کر لے“ آیا ہے اب توجہ کریں کہ کیا نکا ح بھی کبھی عا رضی ہو ا ہے ۔ نکا ح تو زندگی بھر ساتھ نبھا نے کا نا م ہے کہ ہم آپس میں جدا نہ ہوں گے ۔دیکھنے میں ایسا آیا ہے کہ بعض علما ءمتعہ کو حرام کہتے ہیں لیکن اس(حلالہ کے ) نکا ح کو متعہ کی سی صورت میں حلا ل قرا ر دیتے ہیں۔ ایک ہی طر ح کی با ت کو ایک طر ف حرام اور ایک طر ف حلال قرا ر دیتے ہیں۔

حلالہ کی حقیقت
حلالہ کی حقیقت یوں ہے کہ عورت کسی سے ساری زندگی ساتھ نبھانے کی نیت سے نکاح کرلے پھر وہ مر د فوت ہو جائے یااُن میں ناچاقی ہو کر وہ طلاق بائن کی حد کو پہنچ جائیں تو وہ عورت اپنے سابقہ خاوند سے نکاح کر سکتی ہے ۔
نکا ح زندگی بھر ساتھ نبھا نے کا نا م ہے لہٰذا حلا لہ حرام ہے ۔

چندمسائل اوراُن کے جوا بات
سوال : کسی کے مر تد ہو نے پر نکا ح کی کیا حیثیت رہ جا تی ہے ؟
جو اب: جیسا کہ پیچھے لکھا جا چکا ہے کہ نکا ح ایک بہت مضبو ط معاہدہ ہے اور اس پر اثر پڑتے پڑتے پڑتاہے۔ اسی طر ح کسی کے مر تد ہو نے پر بھی نکا ح پر اثر پڑنا شروع ہو جائے گا ۔سب سے پہلے قر آن پاک میں مر تد کے بارے میں آیت پر غور کرتے ہیں۔
تحقیق جو لو گ ایمان لائے پھر کافر ہوئے پھر ایمان لائے پھر کافر ہوئے پھر زیادہ ہوئے کفر میں ہر گزنہیں اللہ یہ کہ بخشے ان کواور نہ یہ کہ دکھا وے ان کو راہ“ (سورة النساء 4 :137)
توجہ: کفرمیں تھا ایمان لایا پھر آیت کے مطابق کا فر ہو ا پھر ایمان لا یا پھر کا فر ہو ا کہ کا فر دوبار ایمان لا کر تیسری بار کا فر(مر تد )ہو ا تو پھر کا فر رہے گا ۔تیسر ی بار کفر کرنے سے پہلے دوبار تک ایمان لانے کے بعد کا فر (مر تد )ہو نے کا گناہ معاف ہے ۔
اصول یاکلیہ یہ بنا کہ مر تد دوبار تک کا گناہ معاف ہے تیسر ی بار مر تد ہو نے پر پکا کا فر بن جا ئے گا ۔ یہ آیت تو ان لو گو ں کے بارے میںہے کہ جو پہلے پیدائشی کا فر تھے لیکن جو پیدائشی مسلمان ہیں ان کا دو بار مر تد ہونے کا گناہ معاف کیا جا تا ہے لیکن تیسری بار نہیں ۔
اب اگر کو ئی شخص مر تد ہو تا ہے تو اس کا نکا ح پر یہ اثر پڑے گا کہ طلا ق موثر کی حد تک بن جائے گی کہ میاں بیو ی ایک دوسر ے کو ہا تھ نہ لگائیں لیکن ایک گھر میں رہیں ۔ مر تد ہونے کے بعد اگر کو ئی ایما ن لے آتا ہے تو جب اللہ تعالیٰ نے ان کا گنا ہ معا ف کر دیا ہے تو انسانوں کی طر ف سے بھی اس کا گناہ معاف ہو گا اور نکا ح بحال ہو جا ئے گا ۔کیو نکہ قرآن پاک میں فر مایا گیا ہے         
 ”کہہ اے بندوں میرے جنہوں نے زیا دتی کی اوپر جا نو ں اپنی کے مت نا امیدہو رحمت اللہ کی سے تحقیق اللہ بخشتا ہے گناہ سارے تحقیق وہی ہے بخشنے والا مہربان “(سورة الزمر 39 : 53)
یہ نکا ح بحال ہو نا دوبار کی حد تک ہے تیسری بار مر تد ہو نے سے ان میاں بیوی میں طلاق با ئن ہو جائے گی۔
ا ب سوال یہ پیدا ہو ا کہ اگر کو ئی میا ں(شوہر) مر تد ہو جا ئے تو اس کی بیوی کتنے عر صے تک اپنے میاں کا واپس ایمان لانے کا انتظار کر ے اس با رے میں پھر قر آن پاک کی طرف چلتے ہیں کہ نکا ح کا اثر زیا دہ سے زیا دہ کتنے عر صے تک باقی رہتا ہے ۔طلا ق کے بعد عدت کی مدت اور عدت کی مدت بچہ جن لینے تک آٹھ نو ماہ اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ فرمایا گیا
وصیت کر جاویں واسطے بی بیوں اپنی کے فائدہ دینا ایک برس تلک نہ نکا ل دینا “(سورة البقرة 2 : 240 )
یعنی مر نے والے کی وصیت کا اثر ایک سال تک ہر کسی کو بر داشت کر نا پڑے گا ۔مثلا ًکسی عورت کو ایک سال نکا ح والے کے مکا ن سے نکا لا نہیں جا سکتا اور ایک سال تک اس کی دوسری وصیتوں پر عمل کیا جائے گا۔ اس آیت سے ثا بت ہو ا کہ نکا ح کا اثر ایک سال تک رہتا ہے ۔لہٰذا مر تد ہونے والے کی بیوی تین ماہ (عدت کی مدت )مر تد کے مکا ن میں رہے پھر مر تد کا مکان چھو ڑ دے اور ایک سال تک انتظار کرے کہ شا ید وہ ایمان لے آئے پھر اگرایک سال تک بھی ایمان نہیں لا تا تو ایک سال کے بعد وہ طلا ق بائن کی حد میں پہنچ جائیں گے ۔
لیکن ایک وضا حت کر نا ضروری سمجھتا ہوں کہ کسی کے منہ سے لا علمی اورکم عقلی کی وجہ سے ایسے الفاظ منہ سے نکل جا ئیں کہ وہ مر تد بنتا ہو اور جب اسے سمجھا یا جا ئے کہ ایسے الفاظ سے تُو مر تد ہو جا ئے گا وہ پشیمان ہو تا ہو ا توبہ کرے تو وہ شخص مرتد ہو نے کی گنتی میں شمار نہ ہو گا ۔
توجہ فرمایا گیا
 ”اور نہیں اوپر تمہا رے گناہ بیچ اس چیز کے کہ خطا کرو تم ساتھ اسکے اور لیکن جو قصد کرکر کر یں دل تمہارے اور ہے اللہ بخشے والا مہر بان “( سورةالا حزا ب 33 : 5 )
توجہ: بھول چوک کا گناہ معاف اور دل سے جان بو جھ کر کیا ہو ا گنا ہ ثا بت ۔یہ آیت بھی انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے ۔

سوال: آپ کا کس امام کے فقہ یا فرقہ سے تعلق ہے ؟ اور ایک ہی وقت میں تین بار طلاق کہنے کی کیا حیثیت ہے ؟
 جواب: میرا کسی امام کے فقہ یا فرقہ سے کوئی تعلق نہیں میری اپنی ذاتی سمجھ (فقہ یا سوچ ) ہے۔ میں تو صرف اتنا کہنا پسند کرتا ہوں کہ میں تومسلمان ہوں۔
 طلاق کے بارے میں اماموں نے جس طرح کہا ہے اُس کا تعارف آپ کو کروا دیتا ہوں۔ کتاب مسئلہ طلاق ثلاثہ از علامہ محمد شفیع اوکاڑوی
اگر طلاق دینے والا ایک یا دو کی نیت کرے یا کوئی نیت نہ کرے تو حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک طلاق بائن واقع ہوتی ہے اور اس میں نکاح جدید کی ضرورت ہوتی ہے اور حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ کے نزدیک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے اور اس میں نکاح جدید کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر طلاق دینے والا تین کی نیت کرے تو دونوں اماموں کے نزدیک تین واقع ہو جائیں گی اور پھر عورت حلال نہ رہے گی
مندرجہ بالا تحریر میں غور کریں اس تحریر میں طلاق سے متعلق امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کا فقہ بھی موجود ہے اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا فقہ بھی موجود ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ طلاق کی صرف دو اقسام پیش کرتے ہیں یا واقف ہیں طلاق بائن اور طلاق مغلطہ اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ بھی طلاق کی صرف دو اقسام پیش کرتے ہیں یا واقف ہیں طلاق رجعی اور طلاق مغلطہ۔ دونوں اماموں کے فقوں میں تضاد ہے۔ دونوں اماموں کے فقوں کے تضاد سے ذہن میں مختلف سوال پیدا ہوتے ہیں کہ پہلے کا فقہ درست ہے تو دوسرے کا غلط ہے اور دوسرے کا درست ہے تو پہلے کا غلط۔ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں اماموں کے فقے غلط ہو سکتے ہیں لیکن تضاد ہوتے ہوئے کوئی یوں نہیں کہہ سکتا کہ دونوں اماموں کے فقہ درست ہیں۔ دونوں علماءکے فقوں کو دیکھتے ہوئے اور قرآن کی آیات پڑھتے ہوئے علماءاس نتیجے پر پہنچ چُکے ہیں کہ طلاق کی تین اقسام ہیں طلاق رجعی، طلاق بائن اور طلاق مغلظہ۔ لیکن ان تین اقسام کی مختلف حدود نہ بنا سکے اور امام حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے فقہ کے مطابق فتویٰ دے دیتے ہیں لیکن اس بندہ نے طلاق کی چھ اقسام پائیں یا محسوس کیں جو کہ لکھ دیں گئیں۔ آج کے دور میں میں نے ایسے واقعہ سُنے کہ کئی سالوں کی دی ہوئی طلاق تھی اور عورت نے کسی دوسرے مرد سے نکاح بھی نہیں کیا اور اُس عورت کا سابقہ خاوند سے نکاح کرا دیا گیاحالانکہ کچھ لوگوں نے اعتراض بھی کیا۔ اعتراض کرنے والے غلطی پر ہیں اور وہ نکاح دین اسلام کے عین مطابق کرایا گیا کہ طلاق بائن کے بعد سابقہ جوڑے کا نکاح کرا یا جا سکتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگوں کو قرآن کا ترجمہ پڑھ کر سمجھ آ رہی ہے۔ پہلے وقتوں میں ان پڑھ دور تھا کہ خط پڑھوانے کے لیے آدمی تلاش کرنا پڑتا تھا۔ آج بھی قرآن کے بہت سے حافظ ترجمہ نہیں جانتے۔
ایک ہی وقت میں تین بار طلاق دینا طلاق باطل ہو گا۔ طلاق لینے کے لیے جیسے عورت عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ کرنے پر مجبور ہے اسی طرح مرد بھی طلاق دینے کے لیے عدالت میں جانے پر مجبور ہے۔ طلاق کا فیصلہ عدالت کرے گی۔

سوال : میا ں بیو ی آپس میں نا را ض ہو تے ہیں اور بیو ی روٹھ کر اپنے میکے چلی جا تی ہے اور نہ ہی وہ بیو ی خلع یا طلا ق کا مطا لبہ کر تی ہے اور نہ ہی اس کا میا ں اس کو طلا ق دیتا ہے اور سالوں گذر جا تے ہیں ۔ کیا ان کا نکا ح ٹو ٹ جا ئے گا ؟
جو ا ب: ان میا ں بیوی کا نکا ح ایسی حالت میں سار ی زندگی نہ ٹو ٹے گا ان کی کیفیت قر آن پاک کی اس آیت کے مطا بق رہے گی ۔
پس چھو ڑ دو ان کو جیسے لٹکی ہو ئی اور صلح کر لو تم اور ڈرو پس تحقیق اللہ سے بخشنے والا مہر بان ٭اور اگر جُدے (جدا ) ہو جا ویں دونو بے پر واہ کر دے گا اللہ ہر ایک کو کشا یش اپنی سے اورہے اللہ کشایش والا حکمت والا ہے “ (سورة النساء 4 : 129، 130 )
 ان کی حالت لٹکی رہے گی۔ یعنی وہ عو رت اس مر د کے نکا ح میں رہے گی سا ری زندگی ۔

سوال: ایک میا ں بیو ی کا جو ڑا نکا ح میں آیا پھرمیاں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر لا پتہ ہو جا تا ہے ۔ اسکی بیوی کئی سال انتظار کرتی ہے لیکن اس کے خا وند کا کو ئی پتہ نہیں چلتا ۔پھر اُسے دو سر ے لو گ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ تیر ا خا وند تو مر گیا ہو گا تُو دوسر ے آدمی سے نکا ح کر لے ۔وہ عورت دوسرے خاوند سے نکا ح کر لیتی ہے ۔ دوسر ے خا وند سے نکاح کے کچھ عر صہ بعد پہلا خاوند بھی آپہنچتا ہے ۔ اب وہ کو ن سے خا وند کی بیوی بنے گی ؟پہلے کی یا دوسرے کی ؟
جواب: وہ عو رت دوسر ے خا وند کی بیوی رہے گی اور اس کا پہلے خاوند سے کو ئی تعلق نہ رہے گا۔جوا زا س کا یہ بنتا ہے کہ کو ئی بھی عورت خا وند کے ظلم کی وجہ سے خا وند کی موجودگی میں خلع حا صل کر سکتی ہے۔ اس عورت پر پہلے خا وند کی طر ف سے ظلم ہو ا ہے کہ وہ لا پتہ ہو گیا دانستہ یا غیر دانستہ۔ مو جو دہ خا وند سے تو خلع کا مطا لبہ کر سکتی ہے لیکن لا پتہ سے مطالبہ خلع تصورہو گا ۔ خلع یک طرفہ کا روائی کے طور پر منظور ہوکر طلا ق تصور ہو گی۔ اس طلا ق (خلع) کے بعد وہ نکا ح ہو ا تو اس طر یقہ سے پہلے خا وند کا اس بیوی پر حق نہ ہو گابلکہ وہ دوسر ے خاوندکے نکا ح میں رہے گی ۔
         
سوال: دودھ شریک بہن بھا ئی کا آپس میں نکا ح حرام ہے ۔ہو ا یو ں کہ ایک آدمی کا ایک عو رت سے نکا ح ہو ا وہ خا وند اپنی بیوی کے ساتھ ایک خبیث حر کت کر نے لگا پھر اس کی بیوی کو بچہ پیدا ہو نے کے بعد اس خا وند نے پھر وہی خبیث حر کت کی تو دودھ گلے سے ہو تا ہو ا پیٹ میں چلا گیا ۔کیا ان کا نکا ح ٹوٹ گیا ؟
جو اب: یہ سوال سن کر میر ے ہوش اڑ گئے اور مجھ سے اس سوال کاکچھ جوا ب نہ بن پڑا اور میں نے صا ف اس وقت کہہ دیا کہ یہ بندہ اس با رے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔لیکن اللہ تعالیٰ کی مہر بانی سے ایک دن کے بعد جوا ب ذہن میں آیا اور پھر اس کو جوا ب دیا اور قر آن پاک میں اس سوال کی تفصیل مو جود ہے ۔
 یہ کہ قر آن پاک کی سو رة المجا دلہ کی پہلی چارآیا ت میں اس سوال کا جوا ب ہے ۔یہ خبیث حر کت ظہار کرنے میں آئے گی ۔ ظہا ر کر نا یہ کہ اپنی بیوی کو اپنی ما ں بنا لینا خواہ کسی بھی صو رت میں۔ عر ب کے لو گ ظہا ر اس طر ح کر تے تھے کہ وہ اپنی بیو ی سے قسم کھا لیتے تھے کہ آج کے بعد تو میر ی ماں ہے اور پھر زندگی بھر وہ عو رت نکا ح میں بھی رہتی اور وہ مرد اسکے قر یب بھی نہ جا تا ۔ایسی ہی قسم ایک صحا بی نے کھائی تھی اس صحا بی کی بیو ی حضو ر پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پا س شکا یت لے کر آئی کہ میر ے خاوند نے مجھ سے ظہار کر لیا ہے۔ اب میں کیا کروں؟ جو ا ب میں اللہ تعالیٰ نے وحی کی صور ت میں سورةالمجا دلہ کی یہ آیا ت اتاریں ۔
تحقیق سنی اللہ نے بات اُس عورت کی جو جھگڑتی تھی تجھ سے بیچ خا وند اپنے کے اور شکا یت کر تی تھی طرف اللہ کی اور اللہ سنتا تھا جوا ب سوال تمہا را تحقیق اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے ٭جو لوگ کہ ظہا ر کر تے ہیں تم میں سے بی بیوں اپنی سے نہیں ہو جا تیں وہ ما ئیں اُن کی نہیں ما ئیں اُن کی مگر جنہو ں نے جنا ہے اُن کو اور تحقیق وہ البتہ کہتے ہیں نامعقول بات اور جھوٹ اور تحقیق اللہ البتہ معا ف کر نے والا بخشنے والا ہے٭ اور جو لو گ کہ ظہا ر کر تے ہیں بی بیوں اپنی سے پھر پھِرجا تے ہیں طر ف اس چیز کی کہ کہا تھا پس آزاد کرنا ہے ایک گردن کا (غلا م کا)پہلے اس سے کہ ایک دوسر ے کو ہا تھ لگا ئیں یہ نصیحت دیئے جا تے ہو تم ساتھ اس کے اور اللہ تعالیٰ سا تھ اس چیز کے کہ کر تے ہو تم خبر دا رہے٭ پس جوکوئی نہ پائے پس روزے ہیں دو مہینے کے پے درپے پہلے اس سے کہ ہا تھ لگا دیں پس جو کو ئی نہ سکے پس کھا نا کھلا نا ہے ساٹھ فقیروں کو یہ اس واسطے ہے کہ ایمان لاؤ تم ساتھ اللہ کے اور رسول اُسکے کے اور یہ ہیں حدیں اللہ کی اور واسطے کا فروں کے عذاب ہے درد دینے والا “ (سورة المجادلہ 58 : 1 تا 4 )
یہ جو آخرمیں لکھا ہے کہ واسطے کا فروں کے عذاب ہے درددینے والا یہاں کا فرسے مراد انکا ر کر نے والا اللہ تعالیٰ کی حدود کی پر وا ہ نہ کر نے والا خوا ہ خود کو مسلمان کہلا تا ہو ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭




No comments:

Post a Comment