Monday, August 11, 2014

ذوالقرنین کون؟






ذوالقرنین کون؟
تحریر و تحقیق:
محمد اکبر اللہ والے، مظفرگڑھ







PDF File Link


Alternative Link of PDF File

READ ONLINE / DOWNLOAD






ذوالقرنین کون؟

ذوالقرنین کون تھا؟ یہ سوال ابھی تشنہ تھا کسی محقق نے سکندر اعظم کو ذوالقرنین کے خطاب سے نوازا بعض نے اس نام کو سائرس کے نام سے منسوب کیا لیکن انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا، دائرہ معارف اسلامیہ اور دیگر تحقیقی کتب بھی ذوالقرنین کے بارے میں قاری کو مطمئن کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ لیکن قرآن حکیم اس سلسلہ میں سیر حاصل مواد فراہم کرتا ہے۔ قرآن پاک کی مختلف آیات (باتیں) اور بائبل میں واضح اشارے موجود ہیں کہ ذوالقرنین دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب تھا۔ یہ نہ تو سائرس کا نام تھا اور نہ ہی کبھی سکندر اعظم کا خطاب ذوالقرنین رہا ہے۔ میں اپنے اس فکر و خیال کو زبردستی ٹھونسنے کی بجائے دلائل کے ذریعے واضح کرنا چاہوں گاکہ ذوالقرنین دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہی خطاب تھا۔ ذوالقرنین سے متعلق قرآن حکیم میں جو بھی آیات ہیں اُن کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے۔
اور سوال کرتے ہیں تجھ کو ذوالقرنین سے کہہ شتاب پڑھوں گا میں اوپر تمہارے اس میں سے کچھ مذکور۔83۔ تحقیق ہم نے قدرت دی تھی اس کو بیچ زمین کے اور دی تھی ہم نے اس کو ہر چیز سے راہ۔84۔ پس پیچھے چلا ایک راہ کے ۔85۔یہاں تک کہ جب پہنچا جگہ ڈوبنے سورج کے پایا اس کو ڈوبتا تھا بیچ چشمے کیچڑ کے اور پایا نزدیک اس کے ایک قوم کو کہا ہم نے اے ذوالقرنین یا یہ کہ عذاب کرے تو ان کو اور یا یہ کہ پکڑے تو بیچ ان بھلائی۔86۔کہاایپر جو شخص ظالم ہے پس البتہ عذاب کریں گے ہم اس کوپھر پھیر اجاوےگا طرف رب اپنے کی پس عذاب کرے گا اس کو عذاب بڑا۔87۔اور ایپرجو شخص کہ ایمان لایا اور عمل کیے اچھے پس واسطے اس کے بطریق جزا کے ہے نیکی اور البتہ کہیں گے ہم اس کو کام اپنے سے آسانی ۔88۔پھر پیچھے چلا اور راہ کے۔89۔یہاں تک کہ جب پہنچا جگہ نکلنے سور ج کی پایا اس کو نکلتاہے اوپر ایک قوم کے کہ نہی کیا ہم نے واسطے ان کے درے اس سے پردہ۔90۔اسی طرح تھا اور تحقیق گھیر لیا تھا ہم نے ساتھ اس چیز کے کہ نزدیک اس کے تھی خبرداری کر۔91۔پھر پیچھے پڑا اور راہ کے۔92۔یہاں تک کہ جب پہنچا درمیان دو دیوار کے پایا درے ان دونوں سے ایک قوم کو کہ نہیں نزدیک تھے کہ سمجھیں بات کو ۔93۔کہا انہوں اے ذوالقرنین تحقیق یا جوج اور ماجوج فسادکرنے والے ہیں بیچ زمین کے پس آیا کر دیویں ہم واسطے تیرے کچھ مال اوپر اس بات کے کہ کر دیوے تو درمیان ہمارے اور درمیان ان کے ایک دیوار ۔94۔کہا جو کچھ قدرت دی ہے مجھ کو بیچ اس کے رب میرے نے بہتر ہے پس مدد کرو میری ساتھ قوت کے کر دوں میں درمیان تمہارے اور درمیان ان کے دیوار موٹی۔95۔لاؤ میرے پاس ٹکڑے لوہے کے یہاں تک کہ جب برابر کر دیا درمیان دونوں پہاڑوں کے کہا پھونکو یعنی دھونکو یہاں تک کہ جب کر دیا اس کو آگ کہا لے آؤ میرے پاس ڈالوں اوپر اس کے تانبا گلا ہوا ۔96۔پس نہ کر سکیں کہ چڑھ آویں اوپر اس کے اور نہ کر سکیں کہ سوراخ کریں اس میں۔97۔کہا یہ مہربانی ہے پروردگار میرے کی پس جب آوے گا وعدہ پروردگار میرے کا کردے گا اس کو ریزہ ریزہ اور ہے وعدہ رب میرے کا سچ۔98“ ( سورة الکہف / 83:18تا 98)
دلیل اول
 یہ کہ سورہ الکہف کی آیات 83تا98 میں ذکر ہے کہ ذوالقرنین نے سورج ڈوبنے کی جگہ یعنی زمین کی مغربین اور سورج نکلنے کی جگہ زمین کی مشرقین تک کا سفر کیا۔ زمین کی مشرقوں اور زمین کی مغربوں تک کا سفر کرنا عام آدمی کے لیے ممکن نہ تھا ۔تاہم اس قسم کا سفرحضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ممکن اور آسان تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہو اپر بھی حکمرانی عطا فرمائی تھی کہ وہ ہوا کو حکم دے کر جہاں چاہتے جا سکتے تھے ثبوت
پس مسخر کیا ہم نے واسطے اس کے باد کو چلتی تھی ساتھ حکم اسکے کے ملائم جہاں پہنچنا چاہتا “ (سورة ص / 36:38)
 اب آئیے سورہ سبا کی آیت نمبر 12کی طر ف
اور واسطے سلیما ن کے مسخر کیا باد کو کہ صبح کی سیر اسکی ایک مہینہ کی راہ اور شام کی سیر اُسکی ایک مہینہ کی راہ ۔۔۔“ (سورة سبا / 12:34)
توجہ: حضرت سلیمان علیہ السلام کی صبح کی سیر اور شام کی سیر ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی کہ جب ٹرانسپورٹ کی ایجاد نہ ہوئی تھی اگر عام قافلہ سفر پر نکلے تو ایک دن میں تیس میل آرام سے طے کر لے اس طرح ایک ماہ کی مسافت کم و بیش نو سو میل بنتی ہے۔ جب ایک انسان یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام صبح کی سیر اور شام کی سیر میں نو سو یا ہزار میل کا سفر طے کر سکتے ہیں اگر وہ سفر پر نکلیں تو ضرور زمین کی مشرقوں اور زمین کی مغربوں تک کا سفر آسانی سے کر سکتے تھے اور سفر کیا۔ لہٰذا ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کا خطاب ہے۔

دلیل دوئم
 سورہ الکہف کی ان آیات میں فرمایا گیا
کہا ہم نے اسے ذوالقرنین یا یہ کہ عذاب کرے تو اُن کو اور یا یہ کہ پکڑے تو بیچ ان کے بھلائی “ (سورة الکہف / 86:18)
یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ ذوالقرنین کا مسلسل اللہ تعالیٰ سے رابطہ تھا اور ان پر وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے پیغام اترتے تھے۔ جو اس بات کی قوی دلیل ہے کہ ذوالقرنین محض ایک بادشاہ ہی نہیں بلکہ خدا کے ایک بر گزیدہ نبی بھی تھے اس طرح یہ بات بھی حضرت سلیمان علیہ السلام پر صادق آتی ہے کہ وہ بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ جبکہ سکندر اعظم اور سائرس کے بارے میں کوئی ایسی شہادت نہیں پائی جاتی جو اس بات کو ثابت کرے کہ یہ جرنیل یا بادشاہ نبی تھے۔ یہ بات بھی قرآن پاک سے ثابت ہے کہ ذوالقرنین قیامت یعنی یوم حساب سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ قیامت کے بارے میں معلومات ہونا بھی ذوالقرنین کے نبی ہونے کی دلالت کرتا ہے کہ آیت 98 میں ذوالقرنین نے کہا
 ”پس جب آوے گا وعدہ پروردگار میرے کا کر دے گا اس کو ریزہ ریزہ “ ( سورة الکہف / 98:18)

دلیل سوئم
سورہ الکہف کی آیت نمبر 92تا98میں ذکر ہے کہ یا جوج ماجوج کی قوم دو پہاڑوں کے بیچ کھلے راستے (درہ)سے دوسری قوم کے علاقے میں داخل ہو کر لوٹ مار کرتے اور واپس چلے جاتے ۔ذوالقرنین کے غیر معمولی اسباب وسائل قوت و حشمت کو دیکھ کر انہیں خیال ہوا کہ ہماری تکالیف و مصائب کا سد باب ان سے ہو سکے گا ۔ انہوں نے اس بارے میں ذوالقرنین سے بات کی اور اس منصوبے پر خرچ آنے والے مصارف کی ادائیگی محصول کی صورت میں ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ذوالقرنین نے جواب میں کہا کہ جو کچھ مقدور دیا ہے مجھ کو رب میرے نے وہ بہترہے سو مدد کرو میری محنت (قوت) میں،بنا دوں تمہارے اور انکے بیچ ایک دیوار موٹی اور لا دو مجھ کو ٹکڑے لوہے کے یہاں تک کہ جب اس لوہے کی بلندی دونوں پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچ گئی تولوگوں کو حکم دیا کہ خوب آگ دھنکو اور جب تانبا تپنے کے بعد پگھلنے لگا تو اس وقت پگھلا ہوا تانبا پہاڑوں کے درمیا ن ڈال دیا۔ جو لوہے کے ٹکڑوںکے درمیان اور پہاڑوں کے درمیان جم گیا اور ایک بہت موٹی تانبے کی دیوار بن گئی اور اس کے بعد یاجوج ماجوج کبھی اس طرف کے علاقے میں داخل نہ ہوسکے ۔
توجہ: ذوالقرنین نے بے شمار وزن کا تانبا پہاڑوں کے درمیان ڈال دیا۔اتنی مقدار میں تانبا وہی شخص ڈال سکتا ہے کہ جس کے پاس بے شمار وزن تانبے کا خزانہ موجود ہو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذوالقرنین کے پاس بے شمار وزن تانبے کا خزانہ تھا جو اس نے استعمال کیا ۔قرآن پاک کی سورة سبا کی آیت نمبر 12میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت( ملک، حکومت یا قبضہ) میں ایک چشمہ ایسا عطا فرمایا تھا کہ جس سے پگھلتا ہوا تانبا بہتا آتا تھا
 ”اور بہا یا ہم نے واسطے اسکے چشمہ گلے ہوئے تانبے کا“ (سورة سبا / 12:34)
جس شخص کی ملکیت میں پگھلتے تانبے کا چشمہ بہتا ہو اس کے لیے پہاڑوں کی مقدار میں تانبا اکھٹا کر لینا کوئی مشکل کام نہیں لہٰذاحضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہاڑوں کے درہ میں ڈالنے کے لیے بے شمار وزن تانبا تھالو ایک اور کڑی مل گئی کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کا خطاب تھا کہ تانبے کا بے شمار خزانہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ہی موجود تھاجو دیوار میں استعمال کیا گیالیکن ایک اور سوال پیدا ہوا کہ پگھلتے بہتے تانبے کا چشمہ کسی اور جگہ ہوگا اور دیوار کسی اور جگہ بہت دور بنائی گی۔ اتنی دور کے مقام سے اتنی یعنی پہاڑ کی مقدار میں تانبا پہنچانا بھی ایک مسئلہ تھا کہ اس زمانے میں نہ سڑکیں ہوتی تھیں اور نہ ٹرانسپورٹ لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے یہ مسئلہ بھی کچھ مسئلہ نہ تھا کہ اِن کے دربار میں ایسے عفریت اور انسان تھے جو ناممکن کام ممکن کر دیکھلاتے تھے ۔جب دربار میں تخت بلقیس لانے کی بات ہوئی تھی تو
 ”کہا ایک دیو نے جنوں میں سے میں لے آں گا تمہارے پاس اس کو پہلے اس سے کہ اٹھو تم جگہ اپنی سے اورتحقیق میں اوپر اسکے البتہ زور آور ہوں با امانت(یعنی دربار برخواست ہونے سے پہلے یا محفل اٹھنے سے پہلے)٭کہا اس شخص نے کہ نزدیک اسکے تھا علم کتاب سے میں لے آؤ نگا تمہارے پاس اس کو پہلے اس سے کہ پھر آوے طرف تمہاری نظر تمہاری “ (سورة النمل / 40,39:27)
اور تخت بلقیس کو لا کر دیکھلایا۔ جو درباری پلک چھپکنے میں بہت دور سے تخت بلقیس اپنے قریب لا سکتا تھا وہی درباری تانبے کو چشمے کے قریب سے پہاڑوں کے درے کے قریب بھی آسانی سے پہنچا سکتے تھے ۔لو ایک اور کڑی مل گئی کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کا خطاب تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور سوال پیدا ہو ا کہ تانبے کو پکھلانے کے لیے بڑی بڑی دیگیں اور کڑاہے چاہیے تھے وہ بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ملتے ہیں
 ” بناتے تھے واسطے اس کے جو کچھ چاہتا تھا قلعوں سے اور ہتھیاروں سے اور تصویر یں اور لگن (کڑاہے )مانند تا لابوں کی اور دیگیں ایک جگہ دھری رہنے والیں “ (سورة سبا / 13:34)
لو ایک اور کڑی مل گئی کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب تھا۔ اس کے علاوہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس کام کرنے والوں میں انسانوں کے علاوہ جنات بھی تھے کہ وہ جن سے بڑے بڑے کرالیتے تھے ۔
 ” اور جنوں میں سے ایک لوگ تھے کہ خدمت کرتے تھے آگے اسکے ساتھ حکم رب اسکے کے “ (سورة سبا / 12:34)
اور مسخر کیے شیطان ہر ایک عمارت بنانے والا اور دریا میں غوطہ مارنے والا “ (سورة ص / 37:38)
 اس آیت مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کارندوں نے عمارات بھی بنائیں اور تانبے کی دیوار ۔ دیوار کا بنانا بھی عمارت کا بنانا کہلاتا ہے لو ایک اور کڑی مل گئی کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام ہی کا خطاب ہے۔

دلیل چہارم
 قرآن پاک میں اللہ تعالی کا یہ انداز بیاں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اکثر آیتیں (باتیں ) مختلف انداز سے دوبار یا دو سے بھی زیادہ بار کی گئیں ہیں ۔ پہاڑوں کے در ے سے ورلی قوم نے جب ذوالقرنین کودیوار بنانے کا کہا تو ساتھ یوں بھی کہا کہ
 ”کر دیویں ہم واسطے تیرے کچھ مال “ (سورة الکہف / 94:18)
تو جواب میں ذوالقرنین کے الفاظ یوں تھے کہ
 ” کہا جو کچھ قدرت دی ہے مجھ کو بیچ اس کے رب میرے نے بہتر ہے “ (سورة الکہف / 95:18)
عام مفہوم میں یوں کہا کہ میرے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے مجھے تمہارے مال حاصل کرنے کی کوئی خواہش نہیں ۔اس طرح جب ملکہ سبا نے بہت سے تحفے دے کر جب اپنے آدمی حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھیجے تو جواب میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے جواب میں کہا
۔۔۔ کیا تم مدد دیتے ہو مجھ کو ساتھ مال کے پس جو کچھ دیا ہے مجھ کواللہ نے بہتر ہے اس چیز سے کہ دیا ہے تم کو بلکہ تم ہی ساتھ تحفہ اپنے کے خوش ہوتے ہو“ (سورة النمل / 36:27)
مطلب یہ کہ میرے پاس اللہ کادیا سب کچھ ہے اور تمہارے تحفوں سے زیا دہ بہتر ہے مجھے تمہارے مال ودولت حاصل کرنے کی نہ خواہش ہے نہ لالچ ۔ان دونوں آیتوں کا انداز بیان ثابت کرتا ہے کہ یہ ایک ہی شخص کے الفاظ ہیںلہٰذا ثابت ہوتا ہے کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان
 ” اے ذالقرنین یا یہ کہ عذاب کرے تو ان کو اور یا یہ کہ پکڑے تو بیچ ان کے بھلائی“ (سورة الکہف / 96:18)
یہ ہے بخشش ہماری پس بخش دے یا بند کر بغیر حساب کے “ (سورة ص / 39:38)
یہ دو آیات بھی جڑواں آیات لگتی ہیں کہ ایک ہی شخص سے کہا گیا ہے لیکن دو جگہ مختلف انداز سے بات کی گئی ہے۔
بائبل سے واضح پتہ چلتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل ہے لیکن قرآن پاک میں کہیں واضح نہیں لکھا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل ہے۔ لیکن جب قرآن پاک میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا دوسرا نام اسرائیل ہے ۔قرآن پاک شاہد ہے کہ نبی کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے اور نبی کو ایک سے زیادہ ناموں سے یاد کیا گیا ہے ۔اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی ذوالقرنین کے نا م سے دیکھلایا گیا ۔ غور فکر کیجیے ۔

دلیل پنجم
 آسمانی کتاب زبور کے باب 72میں سلیمان کا مزمور میں کہا گیا کہ
زبور:باب 72 سُلیمان کا مزمُور۔1۔شا ہزادہ کو اپنی صداقت عطا فرما۔3۔ان لوگوں کے لیے پہاڑوں سے سلامتی کے اور پہاڑیوں سے صداقت کے پھل پیدا ہونگے۔8۔ اُسکی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریائے فرات سے زمین کی انتہا تک ہوگی ۔9۔بیاباں کے رہنے والے اُسکے آگے جھکیں گے اور اُسکے دُشمن خاک چاٹیں گے۔10۔ ترسیس کے اور جزیروں کے بادشاہ نذریں گذرانیں گے۔ سبا اور سیباکے بادشاہ ہدئیے لائیں گے۔ 11۔بلکہ سب بادشاہ اُس کے سامنے سرنگوں ہونگے ۔ کُل قومیں اُسکی مطیع ہونگی
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلا م کے بارے میں دنیا کو اپنی کتاب زبور کے ذریعے آگاہ کر دیا تھا کہ یہ ایسا نبی بادشاہ ہو گا کہ جس کی بادشاہی سمندر سے سمندر تک یعنی زمین کی مشرقوں سے زمین کی مغربوں تک ہو گی اور پہاڑوں سے سلامتی الفاظ سے اشارہ ملتا ہے کہ پہاڑوں کا درہ بند کرکے وہاں کا فساد ختم کرکے سلامتی پیدا کرے گا ۔ ذوالقرنین کے حوالے سے قرآن پاک میں جو تذکرہ ہے وہ بالکل زبور میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں بیان کردہ حالات و واقعات اور خواص پر بالکل منطبق ہے ۔ یہ دلیل ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ ذوالقرنین حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب ہے ۔
ذوالقرنین کے معنی دو سینگوں والا ہے ۔ تاج میں سینگ لگا نا اس وقت عظمت حشمت دبدبے کی نشانی سمجھا جاتا تھا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلا م جب سیر یا سفر کو نکلتے اور ہوا میں اڑتے سفر کرتے تو دور دراز کے جو لوگ آپ کا نام نہ جانتے تھے وہ آپ کے ا و پر دو سینگوں والا تاج دیکھ کر آپ کو ذوالقرنین کہتے جیسا کہ درہ کے قریب کے لوگ کہ جن کے لیے دیوار بنائی وہ آپ کی زبان بھی نہ جانتے تھے انہوں نے آپ کو ذوالقرنین کہا
کہا انہوں نے اے ذوالقرنین“ ( سورة الکہف / 94:18)
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں سروں پر سینگوں کا تاج یا ٹوپا لگا یا جاتا تھا ۔ جواب اس کا زبور باب 75 میں مل جاتا ہے کہ واقعی اس دور میں سردار قسم کے لوگ سروں پر سینگوں والا تاج یا ٹوپا پہنتے تھے کہ فرمایا گیا ۔
 ”زبور: باب 75:4۔اور شریروں سے کہ سینگ اونچا نہ کرو ۔5۔اپنا سینگ اونچا نہ کرو۔
10۔ اور میں شریروں کے سب سینگ کاٹ ڈالوں گا۔ لیکن صادقوں کے سینگ اُونچے کیے جائینگے۔
قرآن پاک میں ایک سوال آیا
 ” اور سوال کرے ہیں تجھ کو ذوالقرنین سے “ (سورة الکہف / 83:18)
قرآن پاک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ خود ہی سوال کرتا ہے اور خود ہی جواب فرہم کرتا ہے اور کوئی ایسا سوال نہیں کہ جس کے بارے میں قرآن پاک میں خاموشی ہو یا کوئی ابہام پیدا ہو لیکن تلاش کرنے والوں کے لیے اور تحقیق کرنے والوں کے لیے قرآن پاک میں کھلی نشانیاں ہیں ۔
یہ کہ سکندر اعظم نے مشرق میں برصغیر تک سفر کیا اور بیمار ہو گیا اور واپسی کا سفر شروع کر دیا اور راستے میں فوت ہوا لہٰذاثابت ہے کہ سکندراعظم زمین کی مشرق سورج نکلنے کی جگہ نہ پہنچ سکا اور سائرس نے مہمات روانہ کیں خود کم سفر کیا لہٰذا یہ ذوالقرنین نہ ہوئے۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے اللہ مجھے سب سے بڑی بادشاہی عطا فرما بمطابق قرآن پاک
 ”کہا اے پروردگار میرے بخش مجھ کو اور دے مجھ کو ملک کہ نہیں لائق ہو واسطے کسی کے پیچھے میرے تحقیق تو ہی ہے بخشنے والا“ (سورة ص / 38:35)
اللہ تعالیٰ نے اُن کی اس دعا کے نتیجے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو سب سے بڑی بادشاہی عطا کی جو ذوالقرنین کے خطاب سے لکھی کہ آپ کی حکومت مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک تھی۔

اب آئیے قرآن پاک کے ان ترجموں کی طرف
اور مسخر کیے شیطان ہر ایک عمارت بنانے والا اور دریا میں غوطہ مارنے والا “ (سورة ص / 38:37)
اور شیطانوں میں سے مسخر کئے وہ جو غوطہ مارتے تھے“ (سورة الانبیاء / 21:82)

سوال: مندرجہ بالا آیات میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے کارندے جو بڑی بڑی عمارات بناتے تھے اور غوطہ لگاتے تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے شیطان کیوں کہا؟ ٓآخر انہوں نے ایسا کیا کام کِیا تھا کہ قرآن پاک میں ان کے لیے شیطان کے الفاظ آئے؟
جواب: جواب کے لیے ہمیں سارے پس منظر میں جانا پڑے گا۔ یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین کی صبح او ر شام کی سیر ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی۔ بائبل سے ہمیں پتہ چلتاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین کا دارالخلافہ دریائے فرات کے قریب تھا کیونکہ فرمایا گیا۔
زبور:باب 72 سُلیمان کا مزمُور۔8۔ اُسکی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریائے فرات سے زمین کی انتہا تک ہوگی
اور سورة سبا میں فرمایا گیا
اور واسطے سلیما ن کے مسخر کیا باد(ہوا) کو کہ صبح کی سیر اسکی ایک مہینہ کی راہ اور شام کی سیر اُسکی ایک مہینہ کی راہ“ (سورة سبا / 34:12)
 یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا گیا تھا کہ ان کی صبح کی سیر اور شام کی سیر ایک ماہ کی مسافت کے برابر تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام دریائے فرات سے جب سیر کرنے کے لیے پاکستان کی طرف آتے تھے تو ان کی سیر کرنے کی حد کوہ سلیمان تھا۔ اس کوہ کانام کوہ سلیمان حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین کے نام پر رکھا گیا تھا اور آج تک ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین نے اترنے کے لیے کوہ سلیمان کی چوٹی کو اوپر سے اس طرح کٹوایا دیا تھا کہ وہ جگہ ایک میدان کی طرح ہموار رہے اس لیے کو ہ سلیمان کی چوٹی کا نام تخت سلیمان ہے اور مشاہدہ کرنے والوں نے اس جگہ کو دیکھا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے شیطان سے کون سی عمارتیں بنوائیں۔ پہاڑ کی چوٹی کا کٹاہوا حصہ اورا حرام مصر کا نقشہ ایک جیسا بنتا ہے کہ جیسے کسی پہاڑ نے بہت بڑے پتھر کاٹ کر لا کر احرام مصر بنائے گئے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بنائی ہوئی عمارات لازمی بات ہے عجوبے ہونگے اور اس علاقے میں عمارات میں عجوبے احرام مصر نظر آتے ہیں جو کہ ظاہر ہے حضرت سلیمان علیہ السلام ذوالقرنین نے ہی بنائے ہونگے اور یہ کام شیطان جنات سے کرایا کہ یہ احرام مصر کا بنانا اس وقت انسانی کام نظر ہی نہیں آتا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے وہ شیطان کارندے کہ جن کواللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے بس میں کر دیا تھا وہ مجبور تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد انہوں نے شیطانی کام یہ کیا کہ احرام مصر کے ساتھ ابوالہول بت کا مجسمہ بھی بنا دیا تا کہ بعد کے آنے والے لوگوں کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا فر اور بت پرست تھے”نعوذ باللہ “اور یوں ہوا بھی کہ بعد میں یہود کے کچھ لوگوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جادوگر وغیرہ کہا ور اللہ کا نبی نہ مانا ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کارندوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں شیطان اس لیے کہا کہ انہوں نے حضرت سیلمان علیہ السلام کی وفات کے بعد شیطانی کام کیے اور بت ابو الہول بنایا۔

ذوالقرنین کون کی یہ تحریر یہ بندہ اخبار نوائے وقت میں6 جون 1995میں چھپوا چکا ہے اس سے پہلے 8فروری 1995مقامی ہفت روزہ اخبار جلوس میں اور قومی آواز میں 5جون 1995میں چھپوا چکا ہے اور اس کتاب کی کئی تحریریں مقامی ہفت روزہ اخباروں میں چھپوا چکا ہے ۔ اس کتاب دوسرا ایڈیشن میں یہ تحریر ذوالقرنین کون ؟ چوتھی بار چھپ رہی ہے۔

    

No comments:

Post a Comment